اسلام آباد ہائیکورٹ، جو کہ لاپتہ افراد کے مقدمات میں اپنی روایتی حساسیت اور فوری کارروائی کی شہرت رکھتی ہے، آج ایک غیرمعمولی صورتِ حال کی گواہ بنی۔ معروف وکیل ایمان مزاری جب نگار خان نیازی کی بازیابی کے لیے جسٹس انعام امین منہاس کی عدالت میں پیش ہوئیں تو روسٹرم پر ہی تلخ جملوں کا تبادلہ دیکھنے میں آیا۔
کیس کی کال ہونے پر جسٹس انعام امین منہاس نے ابتدائی ریمارکس دیے کہ درخواست پر موجود اعتراضات دور کر دیے گئے ہیں اور باقی معاملہ بعد میں دیکھا جائے گا۔ اس پر ایمان مزاری نے دلائل دیے کہ یہ انتہائی فوری نوعیت کا کیس ہے اور لاپتہ افراد کے مقدمات میں عدالت پہلے بھی فوری احکامات جاری کر چکی ہے۔ انہوں نے شاعر فرہاد احمد کے کیس کا حوالہ دیتے ہوئے عدالت کو یاد دلایا کہ ایسے کیسز میں نوٹسز بھی ہوئے اور افراد بازیاب بھی ہوئے۔
تاہم حیران کن طور پر جسٹس انعام امین منہاس نے کہا کہ اس کیس میں جلدی کی کوئی گنجائش نہیں اور پہلے سے ایسا کوئی حکم نامہ موجود نہیں ہے۔ مزید برآں جب ایمان مزاری نے لارجر بینچ کی عدم دستیابی کی نشاندہی کی تو جسٹس انعام امین منہاس نے معاملہ لارجر بینچ کو بھیجنے کی تجویز دی اور مختصر ریمارکس میں کہہ دیا: "میڈم ہم نے نوٹس کر دیے ہیں، آپ جا سکتی ہیں!”
یہ صورتِ حال اس وقت سنگین سوالات کو جنم دے رہی ہے کہ کیا اسلام آباد ہائیکورٹ، جو لاپتہ افراد کے مقدمات میں ہمیشہ ایک امید سمجھی جاتی تھی، اب اسی جذبے سے کام کر پائے گی یا نہیں۔ انسانی حقوق کے حلقوں میں اس رویے کو حیران کن قرار دیا جا رہا ہے اور سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا آئندہ بھی اسی طرح کے کیسز کو سرد خانے کی نذر کر دیا جائے گا؟
لاپتہ افراد کیس پر بریک؟ جسٹس انعام کی روسٹرم پر تلخ کلامی سے سوالات جنم لینے لگے
22.9K
پچھلی خبر