وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی زیر صدارت صوبائی کابینہ کا اجلاس منعقد ہوا، جس میں صوبائی وزراء، مشیران، معاونین خصوصی، چیف سیکریٹری آصف حیدر شاہ، پرنسپل سیکریٹری آغا واصف، چیئرمین پی اینڈ ڈی نجم شاہ اور متعلقہ محکموں کے اعلیٰ افسران شریک ہوئے۔
دریائے سندھ میں سیلابی ریلے
وزیراعلیٰ سندھ نے کابینہ کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ 24 اگست کو پہلا سیلابی ریلہ گڈو بیراج پر 5 لاکھ 34 ہزار کیوسک کے ساتھ آیا، 25 اگست کو سکھر بیراج پر 4 لاکھ 81 ہزار اور 2 ستمبر کو کوٹڑی بیراج پر 2 لاکھ 73 ہزار کیوسک پانی پہنچا۔
انہوں نے کہا کہ دوسرا بڑا ریلہ 15 ستمبر کو 6 لاکھ 35 ہزار کیوسک پانی کے ساتھ گڈو بیراج پر پہنچا، جبکہ 16 ستمبر کو سکھر بیراج پر 5 لاکھ 72 ہزار کیوسک پانی آیا۔ اس وقت کوٹڑی بیراج پر 3 لاکھ 86 ہزار کیوسک پانی کا بہاؤ جاری ہے جو بڑھ کر تقریباً 4 لاکھ کیوسک ہوسکتا ہے۔
حکومتی اقدامات اور محکموں کی کارکردگی
مراد علی شاہ نے بتایا کہ سندھ حکومت نے این ڈی ایم اے کی جانب سے 8 سے 11 لاکھ کیوسک پانی کے خدشے کے پیش نظر پہلے ہی “سپر فلڈ” کی تیاری کی تھی۔
انہوں نے کہا کہ محکمہ آبپاشی، ری ہیبلیٹیشن، صحت اور لائیو اسٹاک سمیت تمام اداروں کو الرٹ کیا گیا۔ وزراء کو بیراجوں اور بندوں کی نگرانی کے لیے ذمہ داریاں تفویض کی گئیں۔
وزیراعلیٰ نے وزیر آبپاشی جام خان شورو کی خدمات کو سراہا جنہوں نے 15 سے 16 دن گڈو اور سکھر بیراج کے درمیان گزارے۔ اسی طرح مکیش کمار، محمد بخش مہر، جام اکرام دھاریجو، ناصر شاہ، ریاض شاہ شیرازی اور محمد علی ملکانی نے مختلف بیراجوں اور علاقوں کی نگرانی کی۔
متاثرین کے لیے ریلیف اقدامات
وزیراعلیٰ نے بتایا کہ ایک لاکھ 92 ہزار 122 متاثرین کو سہولیات فراہم کی گئیں۔ صوبے میں 528 ریلیف کیمپس کی تیاری کی گئی تھی لیکن ضرورت صرف 17 کیمپس کو فعال کرنے کی پڑی۔
محکمہ صحت نے 145 میڈیکل کیمپس قائم کیے جہاں اب تک 1 لاکھ 34 ہزار 240 افراد کا علاج کیا گیا۔ محکمہ لائیو اسٹاک کے کیمپس میں 4 لاکھ 92 ہزار جانوروں کا علاج کیا گیا اور 16 لاکھ مویشیوں کو ویکسین لگائی گئی۔
مشترکہ کوششوں کی تعریف
وزیراعلیٰ نے کہا کہ صوبائی وزراء، اراکین اسمبلی، ضلعی انتظامیہ خصوصاً سکھر اور لاڑکانہ کے کمشنرز، ڈی آئی جیز اور انفارمیشن ڈپارٹمنٹ سب نے بروقت کردار ادا کیا۔ ان مشترکہ اقدامات کے باعث بڑے نقصان سے بچاؤ ممکن ہوا۔
مستقبل کی تیاری اور موسمیاتی چیلنجز
وزیراعلیٰ نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے باعث اگلے سال قبل از وقت اور شدید مون سون کا اندیشہ ہے۔ اس لیے محکمہ آبپاشی سمیت تمام اداروں کو تیاری کرنا ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ 2010، 2011، 2015، 2020 اور 2022 کے سیلابوں سے سبق سیکھا، اور اس سال کے تجربات سے بھی آئندہ مزید بہتر کام کیا جائے گا۔