وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے کہا ہے کہ بلوچستان حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مائنز اینڈ منرل ایکٹ سے متعلق مذاکرات کامیاب ہو گئے ہیں۔ یہ پیش رفت صوبے میں جمہوری روایات، اتفاق رائے اور عوامی مفادات کو مقدم رکھنے کی عکاسی کرتی ہے۔
مشترکہ پریس کانفرنس
بلوچستان اسمبلی کے اجلاس کے بعد وزیر اعلیٰ نے اپوزیشن اراکین اور صوبائی وزراء کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔ اس موقع پر لیڈر آف اپوزیشن میر یونس عزیز زہری، اراکین اسمبلی خیر جان بلوچ، اصغر ترین، میر جہانزیب خان مینگل، رحمت صالح بلوچ، مولانا ہدایت الرحمٰن، زمرک خان اچکزئی، صوبائی وزراء میر محمد صادق عمرانی، میر سلیم خان کھوسہ، بخت محمد کاکڑ، مشیر مینا مجید بلوچ، میر برکت رند اور حاجی علی مدد جتک بھی موجود تھے۔
مائنز اینڈ منرل ایکٹ دوبارہ اسمبلی میں پیش ہوگا
وزیر اعلیٰ نے کہا کہ مائنز اینڈ منرل ایکٹ پر کافی عرصے سے بات چیت جاری تھی اور اس کے منظور ہونے کے بعد مختلف اعتراضات سامنے آئے تھے۔ تاہم حکومت نے وعدہ کیا تھا کہ تمام جماعتوں کو اعتماد میں لے کر فیصلہ کیا جائے گا۔ انہوں نے اعلان کیا کہ یہ ایکٹ قرارداد کی صورت میں دوبارہ صوبائی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا تاکہ کسی کو کوئی تحفظات باقی نہ رہیں۔
ایگزیکٹیو آرڈر کے تحت عمل درآمد معطل
میر سرفراز بگٹی نے کہا کہ ایگزیکٹیو آرڈر کے ذریعے مائنز اینڈ منرل ایکٹ پر عمل درآمد آج سے روک دیا گیا ہے۔ اب ایک کمیٹی تشکیل دی جا رہی ہے جس میں حکومت اور اپوزیشن دونوں کے اراکین شامل ہوں گے، تاکہ ترامیم اور فیصلے مشترکہ اتفاق رائے سے کیے جا سکیں۔
عوامی حقوق اولین ترجیح
وزیر اعلیٰ نے کہا کہ عوامی حقوق سے متعلق کسی بھی قانون سازی پر حکومت سب کے ساتھ بیٹھنے کو تیار ہے تاکہ فیصلے شفاف، جمہوری اور عوام دوست ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے معدنی وسائل صوبے کا قیمتی سرمایہ ہیں اور ان کے بہتر استعمال کے لیے ضروری ہے کہ تمام سیاسی قوتیں مل کر کام کریں۔
معدنی وسائل سے معیشت کی ترقی
میر سرفراز بگٹی نے کہا کہ 18ویں ترمیم کے بعد مائنز اینڈ منرل ایکٹ پہلے ہی قانون کی شکل اختیار کر چکا ہے، اب صرف اس میں ترامیم کی جا سکتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی کوشش ہے کہ معدنی وسائل کے ذریعے صوبے کی معیشت کو ترقی دی جائے تاکہ ان کے ثمرات براہ راست عوام تک پہنچیں۔