وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے کہا ہے کہ صوبے میں علیحدگی پسند دہشت گردوں کو آج بھی افغانستان کی سرپرستی حاصل ہے اور ریاست کے خلاف بندوق اٹھانے والوں کو قانون کے مطابق جواب دینا ہوگا۔
وزیراعلیٰ نے اسلام آباد میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام منعقدہ کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ بلوچستان کے بارے میں 40 سال سے جو بیانیہ پیش کیا جارہا ہے، وہ حقیقت سے مختلف ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’دہشت گرد کا کوئی قبیلہ نہیں ہوتا، بلوچستان کے حقوق صرف سیاسی جدوجہد اور پارلیمنٹ سے ملیں گے، تشدد کی سیاست سے نہیں۔‘‘
ماضی اور امن و امان کی صورتحال
سرفراز بگٹی نے کہا کہ:
• بلوچستان میں 21 جون 2001 کو فراری کیمپ قائم کیے گئے۔
• 2008 کا الیکشن صوبے کی تاریخ کا سب سے پرامن الیکشن تھا۔
• 2016 تک بلوچستان زیادہ تر پرامن رہا۔
• تاہم 2018 میں جن افراد کو چھوڑا گیا، انہوں نے دوبارہ دہشت گردی کی راہ اختیار کی۔
بیرونی مداخلت اور علیحدگی پسند عناصر
وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے کیس میں کئی ممالک پاکستان کے خلاف نفرت پھیلا رہے ہیں اور صوبے کو کیک کی طرح تقسیم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ:
• پاکستان نہیں ٹوٹے گا کیونکہ ہمارے پاس بہترین عوام اور وسائل موجود ہیں۔
• بلوچستان کے عوام سسٹم کو بدلنا نہیں چاہتے، دہشت گردوں کا صوبے سے کوئی تعلق نہیں۔
• 19 سالہ نوجوان کو نوکری نہ ملنے پر بندوق اٹھانے پر مجبور کرنا سب سے بڑا ظلم ہے۔
ترقی، احتجاج اور مسنگ پرسنز کا مسئلہ
سرفراز بگٹی نے کہا کہ لاہور اور کوئٹہ کا کوئی موازنہ نہیں، نہ ہی پنجاب اور بلوچستان میں ترقی پر کوئی جھگڑا ہے۔ ’’اگر ترقی پر جھگڑا ہوتا تو مزدوروں کو قتل نہ کیا جاتا۔‘‘
انہوں نے احتجاج کے طریقہ کار پر بات کرتے ہوئے کہا کہ آئین کے تحت ہر شہری کو احتجاج کا حق حاصل ہے لیکن:
• سڑکیں بند کرنا غلط ہے۔
• ایمبولینس میں مریض کو مرنے دینا ظلم ہے۔
• اس قسم کا احتجاج کسی صورت درست نہیں۔
مسنگ پرسنز اور حکومتی اقدامات
وزیراعلیٰ نے کہا کہ دہشت گردوں کو گرفتار کر کے عدالت میں پیش کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ:
• مسنگ پرسن پر تحریک چلانے والے اپنی تقریروں میں ان کا ذکر نہیں کرتے۔
• لاپتہ افراد پر سیاست کرنے والوں کو بلوچستان کی پسماندگی میں فائدہ ہے۔
• ہماری حکومت پہلی ہے جس نے لاپتہ افراد کے مسئلے کو حل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔