واشنگٹن: بحرالکاہل میں چین کی بڑھتی ہوئی فوجی طاقت کا مقابلہ کرنے کے لیے ہزاروں خودکار ڈرونز اور مصنوعی ذہانت سے لیس ہتھیاروں پر مشتمل امریکی فوج کا منصوبہ "ریپلیکیٹر” شدید مشکلات کا شکار ہو کر اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام ہوگیا۔
وال اسٹریٹ جنرل کی رپورٹ میں پینٹاگون کے حوالے سے لکھا گیا ہے کہ ان ہتھیاروں کی تیاری اور عملی استعمال میں فنی خامیاں، تاخیر اور بھاری اخراجات رکاوٹ بنے ہوئے ہیں جس کے باعث یہ منصوبہ اپنے اہداف پورے نہیں کر سکا جس کی وجہ سے اس منصوبے کو اب ایک نئی تنظیم کے حوالے کر دیا گیا ہے تاکہ سست رفتاری اور دیگر مسائل پر قابو پایا جا سکے۔
یہ پروگرام ’’ریپلیکیٹر‘‘ کہلاتا ہے جسے 2023 میں اُس وقت کی نائب وزیردفاع کیتھلین ہکس نے شروع کیا تھا۔ ان کا وعدہ تھا کہ یہ ڈرونز ’’چھوٹے، اسمارٹ اور سستے‘‘ ہوں گے۔ منصوبے کے تحت فضائی، زمینی اور بحری سطح پر مصنوعی ذہانت پر مبنی ہزاروں نظام اگست 2025 تک فراہم کیے جانا تھے۔ ہکس نے اس کے لیے دو سال میں ایک ارب ڈالر کا مطالبہ کیا تھا تاہم بعض اراکینِ کانگریس نے اربوں ڈالر مزید فراہم کرنے پر زور دیا۔
تاہم منصوبہ کئی مشکلات سے دوچار رہا۔ کچھ ڈرونز ناقابلِ اعتماد نکلے، کچھ بہت مہنگے یا سست رفتار سے تیار ہوئے جبکہ سافٹ ویئر مسائل نے بڑے پیمانے پر مختلف کمپنیوں کے ڈرونز کو یکجا کرکے ہدف تلاش اور حملے کے قابل بنانا مشکل بنا دیا۔
پینٹاگون نے اب یہ منصوبہ اسپیشل آپریشنز کمانڈ کے تحت ’’ڈیفنس آٹونومس وارفیئر گروپ‘‘ (DAWG) کو منتقل کر دیا ہے جہاں امریکی فوج کے افسر لیفٹیننٹ جنرل فرینک ڈونووان اس کی نگرانی کریں گے۔
حکام کے مطابق اس تبدیلی کا مقصد عمل کو تیز کرنا اور درست ہتھیاروں پر توجہ مرکوز کرنا ہے۔
رپورٹ کے مطابق منصوبے کے دوران کئی خامیاں سامنے آئیں جیسے کہ کیلیفورنیا میں ہونے والی ایک مشق میں بلیک سی ٹیکنالوجیز کی بغیر پائلٹ کشتی کا اسٹیئرنگ ناکام ہوگیا اور وہ بہہ گئی جبکہ اینڈریل انڈسٹریز کے ایک فضائی ڈرون کی لانچنگ میں تاخیر ہوئی۔ متعدد کشتیوں کے سافٹ ویئر نے اشیا کی درست شناخت کرنے میں ناکامی دکھائی۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ریپلیکیٹر کے تحت درجن بھر نظام خریدے گئے جن میں سے تین نامکمل تھے یا محض تصوراتی شکل میں موجود تھے۔ بلیک سی کی بغیر پائلٹ کشتی ’’گارک‘‘ بڑی تعداد میں خریدی گئی، حالانکہ یہ طویل فاصلے اور پیچیدہ مشنز کے لیے موزوں نہیں تھی، اسی طرح ’’سوئچ بلیڈ 600‘‘ ڈرون جو یوکرین میں مشکلات کا شکار رہا تھا، بڑی تعداد میں حاصل کیا گیا۔
ماہرین کے مطابق یہ جدید جنگ میں مواصلاتی خلل کے دوران کمزور ثابت ہو سکتا ہے۔
اگرچہ ان مسائل کی وجہ سے تنقید کی جا رہی ہے لیکن بعض ماہرین اسے بڑی حد تک کامیاب بھی قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ریپلیکیٹر نے محض دو سال میں نئے ڈرون سسٹمز کی خریداری، جانچ اور ترقی کے عمل کو آگے بڑھایا اور روایتی ہتھیاروں کی خریداری کے عمل کو کئی سال تیز کر دیا۔
جریدے نے لکھا ہے کہ پینٹاگون حکام کے مطابق اس پروگرام کا اصل مقصد بحرالکاہل میں چین کے ساتھ ممکنہ جنگ کی تیاری ہے، چین نے حالیہ برسوں میں بحری جہازوں، طیاروں اور جدید ہتھیاروں میں تیزی سے اضافہ کیا ہے اور امریکی عہدیدار سمجھتے ہیں کہ وہ 2027 تک تائیوان پر قبضہ کرنے کی تیاری کر سکتا ہے۔
ایسی صورتِ حال میں خودکار ڈرونز میدانِ جنگ کو وسیع کر کے دشمن کو الجھا سکتے ہیں، دفاعی نظام کو دباؤ میں ڈال سکتے ہیں اور کم جانی نقصان کے ساتھ حملے ممکن بنا سکتے ہیں۔
ڈی اے ڈبلیو جی کے پاس اب دو سال سے بھی کم وقت ہے تاکہ پینٹاگون کو مطلوبہ ڈرونز فراہم کیے جا سکیں۔ٰٓ