بیجنگ: چین میں تیزی سے بڑھتی ہوئی عمر رسیدہ آبادی اور مزدوروں کی کمی کے باعث گزشتہ سال 2 لاکھ 95 ہزار نئے صنعتی روبوٹس فیکٹریوں میں نصب کیے گئے — یہ اب تک کی سب سے بڑی سالانہ تنصیب قرار دی جا رہی ہے۔
چینی میڈیا کے مطابق روبوٹکس ٹیکنالوجی میں یہ تیزی نہ صرف چین کے مینوفیکچرنگ شعبے کو مستحکم کر رہی ہے بلکہ مزدوروں پر انحصار کم کرتے ہوئے مصنوعی ذہانت پر مبنی خودکار صنعتوں کے ایک نئے دور کی بنیاد رکھ رہی ہے۔
چین دنیا میں روبوٹ استعمال کرنے والا سب سے بڑا ملک
بین الاقوامی فیڈریشن آف روبوٹکس (IFR) کی 2025 رپورٹ کے مطابق چین میں فعال صنعتی روبوٹس کی تعداد 20 لاکھ 27 ہزار یونٹس سے تجاوز کر گئی ہے، جو دنیا کے کسی بھی ملک سے زیادہ ہے۔
رپورٹ کے مطابق 2024 میں دنیا بھر میں نصب ہونے والے 5 لاکھ 42 ہزار نئے روبوٹس میں سے 54 فیصد صرف چین میں نصب کیے گئے۔ ان روبوٹس کو گاڑیوں کے فریم جوڑنے، الیکٹرانک آلات اسمبل کرنے، اور بھاری سامان کی منتقلی جیسے کاموں میں استعمال کیا جا رہا ہے۔
بوڑھی ہوتی آبادی اور خودکار صنعتوں کی ضرورت
ماہرین کے مطابق چین کی آبادی میں گزشتہ سال 0.1 فیصد کمی واقع ہوئی، جبکہ اسی عرصے میں صنعتی روبوٹس کی تنصیب میں 5 فیصد اضافہ ہوا۔
یہ رجحان ظاہر کرتا ہے کہ ملک مزدوروں کی کمی پوری کرنے کے لیے خودکار ٹیکنالوجی پر تیزی سے انحصار بڑھا رہا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق روبوٹ ٹیکنالوجی کا یہ پھیلاؤ چین کی صنعتی خود انحصاری کو تقویت دے رہا ہے اور عالمی مینوفیکچرنگ سپلائی چین میں اس کی لیڈرشپ برقرار رکھنے میں مددگار ثابت ہوگا۔
ہیومنائیڈ روبوٹس: چین کی اگلی منزل
ماہرین کے مطابق چین کا اگلا ہدف ہیومنائیڈ روبوٹس (Humanoid Robots) کی بڑے پیمانے پر پیداوار ہے — یعنی انسانی شکل کے خودکار روبوٹس جو فیکٹریوں سے لے کر گھروں تک مختلف کام انجام دے سکیں۔
چینی میڈیا کے مطابق رواں سال اگست 2025 میں صوبہ گوانگ ڈونگ کی ایک کمپنی نے 10 ہزار ہیومنائیڈ روبوٹس کے آرڈرز حاصل کیے — جو اس شعبے کی تاریخ کا سب سے بڑا معاہدہ ہے۔
یہ روبوٹس بالخصوص بزرگ شہریوں کی دیکھ بھال اور صحت کی خدمات میں استعمال کیے جائیں گے۔
جاپان اور امریکا پیچھے رہ گئے
اعداد و شمار کے مطابق چین کے بعد جاپان میں گزشتہ سال 45 ہزار نئے روبوٹس نصب کیے گئے، جبکہ امریکا میں یہ تعداد 34 ہزار 200 رہی۔
دنیا بھر میں صنعتی روبوٹس کی مجموعی تنصیب 9 فیصد اضافے کے ساتھ 46 لاکھ 64 ہزار یونٹس تک پہنچ گئی — جو عالمی سطح پر خودکار مینوفیکچرنگ کی بڑھتی ہوئی رفتار کی عکاس ہے۔
ماہرین کا تجزیہ
ماہرین کا کہنا ہے کہ چین کا فوکس صرف پیداوار بڑھانے پر نہیں بلکہ ڈیجیٹل انڈسٹریل ٹرانسفارمیشن پر ہے — جس میں مصنوعی ذہانت، سینسر سسٹمز اور روبوٹکس ایک مربوط نظام کے طور پر کام کر رہے ہیں۔
ان کے مطابق آئندہ چند برسوں میں چین کی فیکٹریوں میں ہیومن–روبوٹ کولیبوریشن (Human-Robot Collaboration) عام ہو جائے گی۔