اسلام آباد: سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے تجارت نے سرکاری اداروں کے سربراہان کی غیرمعمولی تنخواہوں اور مراعات پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس معاملے کا باقاعدہ نوٹس لے لیا ہے۔
کمیٹی کے اجلاس کے دوران انکشاف ہوا کہ بعض سرکاری اداروں کے چیف ایگزیکٹو افسران (سی ای اوز) اور چیف آپریٹنگ افسران (سی او اوز) کی تنخواہیں مختصر عرصے میں دوگنا کر دی گئیں۔
اجلاس میں بتایا گیا کہ نیشنل انشورنس کمپنی لمیٹڈ (NICL) کے سی ای او کو ماہانہ 30 لاکھ روپے تنخواہ دی جا رہی ہے، جبکہ چیئرمین اسٹیٹ لائف انشورنس کی ماہانہ گراس سیلری بھی 30 لاکھ روپے سے زائد ہے۔
سینیٹر انوشے رحمان نے اجلاس میں کہا کہ بھاری تنخواہوں کے ساتھ ساتھ افسران کو 10،10 بونس بھی دیے جا رہے ہیں، جو کارکردگی سے منسلک نہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ بونس کی ادائیگی کو کارکردگی اور ٹارگٹس کی تکمیل سے مشروط کیا جائے۔
وزارتِ تجارت کے حکام نے بتایا کہ ان افسران کو گاڑیاں، دو سیکیورٹی گارڈز، کلب ممبرشپ، 500 لیٹر پیٹرول، مفت فیملی میڈیکل، گروپ انشورنس، موبائل فون اور لیپ ٹاپ جیسی مراعات بھی حاصل ہیں۔
انوشے رحمان نے نشاندہی کی کہ “افسران کو پانچ لاکھ روپے پر بھرتی کیا جاتا ہے، اور چھ ماہ بعد ان کی تنخواہیں دوگنا کر دی جاتی ہیں۔ اگر 30 لاکھ تنخواہ دینی ہے تو اشتہار میں واضح طور پر اس کا ذکر ہونا چاہیے۔”
بریفنگ کے دوران بتایا گیا کہ این آئی سی ایل کے سابق سی ای او کی یکم جنوری 2022 کو تنخواہ 15 لاکھ روپے تھی، جو 2023 میں 20 لاکھ، 2024 میں 24 لاکھ اور 2025 میں 28 لاکھ 80 ہزار روپے کر دی گئی۔
حکام نے کہا کہ یہ اضافے اداروں کے بورڈز کی منظوری سے کیے گئے ہیں۔
چیئرپرسن کمیٹی نے اظہارِ برہمی کرتے ہوئے کہا کہ “ایس ای سی پی، اسٹیٹ بینک سمیت کئی ادارے قواعد پر عمل نہیں کر رہے۔ بھاری تنخواہیں اور مراعات عوام کے لیے ناقابلِ فہم ہیں۔ ایس او ای ایکٹ میں ترمیم ناگزیر ہو چکی ہے۔”
سیکریٹری تجارت جواد پال نے کہا کہ انہیں بھی اس حوالے سے تحفظات ہیں، جو سرکاری ریکارڈ کا حصہ ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اشتہارات دیتے وقت ماہانہ تنخواہ کے تین سالہ فریم ورک کی وضاحت لازمی ہونی چاہیے۔
انوشے رحمان نے زور دیا کہ سرکاری ملازمت کی ضرورت اور معیار کو امیدوار کی قابلیت کے مطابق ہونا چاہیے۔
آخر میں وزارتِ تجارت نے اپنے 8 ذیلی اداروں کے افسران کی تنخواہوں اور مراعات کی تفصیلات کمیٹی کے سامنے پیش کر دیں۔