غزہ / واشنگٹن: مشرقِ وسطیٰ میں امن کے لیے بڑی پیش رفت سامنے آئی ہے — اسرائیل اور حماس نے امریکا کے مجوزہ غزہ امن معاہدے کے پہلے مرحلے پر باضابطہ طور پر دستخط کر دیے۔ اس اقدام کو غزہ میں مستقل جنگ بندی کی جانب اہم قدم قرار دیا جا رہا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا اعلان
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر جاری بیان میں تصدیق کی کہ:
“اس معاہدے کے تحت تمام یرغمالیوں کی جلد رہائی عمل میں لائی جائے گی، جبکہ اسرائیل اپنی فوج کو متفقہ لائن تک واپس بلائے گا۔”
انہوں نے کہا کہ یہ معاہدہ امن کے طویل المدتی اور پائیدار سفر کی پہلی بڑی پیش رفت ہے، جس میں تمام فریقوں کے ساتھ منصفانہ برتاؤ یقینی بنایا جائے گا۔
ٹرمپ نے اس تاریخی معاہدے میں کردار ادا کرنے والے قطر، مصر اور ترکی کے ثالثوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ:
“یہ دن عرب و مسلم دنیا، اسرائیل، تمام ہمسایہ ممالک اور امریکا کے لیے ایک عظیم دن ہے۔”
قطر کی تصدیق
قطری وزارتِ خارجہ نے بھی اس پیش رفت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ جنگ بندی کے پہلے مرحلے پر معاہدہ طے پا گیا ہے۔
ترجمان کے مطابق، اس معاہدے کے تحت:
• غزہ میں جنگ کا خاتمہ،
• اسرائیلی یرغمالیوں اور فلسطینی قیدیوں کی رہائی،
• اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کی فراہمی ممکن ہو گی۔
وزارت نے کہا کہ تفصیلات کا باضابطہ اعلان بعد میں کیا جائے گا۔
حماس کا باضابطہ بیان
حماس نے بھی امریکی صدر کے اعلان کے بعد اپنا پہلا باضابطہ بیان جاری کیا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ:
“ایک معاہدہ طے پا گیا ہے جس کے تحت غزہ پر جنگ کا خاتمہ، اسرائیلی فوج کا مکمل انخلا، انسانی امداد کی فراہمی اور قیدیوں کے تبادلے کی شقیں شامل ہیں۔”
حماس نے مزید کہا کہ:
“ہم امریکی صدر، عرب ثالثوں اور بین الاقوامی فریقوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اسرائیل کو معاہدے کی تمام شرائط پر مکمل عمل درآمد کے لیے پابند کریں اور کسی تاخیر یا وعدہ خلافی کو برداشت نہ کریں۔”
اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کا ردعمل
اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے معاہدے پر مختصر ردِعمل دیتے ہوئے کہا کہ:
“اسرائیلی حکومت اپنے شہریوں کی بحفاظت واپسی کے لیے پرعزم ہے، ہم اپنے تمام یرغمالیوں کو واپس لائیں گے۔”
اسرائیلی میڈیا کے مطابق، سمجھوتے کے تحت حماس 20 زندہ یرغمالیوں کو اگلے 72 گھنٹوں میں رہا کرے گی، جبکہ امریکی ذرائع ابلاغ کے مطابق یرغمالیوں کی رہائی ہفتہ یا اتوار کو متوقع ہے۔
بین الاقوامی ردِعمل
عالمی تجزیہ کاروں کے مطابق، یہ معاہدہ غزہ میں جاری انسانی بحران کے خاتمے اور مستقل امن عمل کی راہ میں ایک تاریخی پیش رفت ہے۔
قطر، مصر اور ترکی کی ثالثی نے ایک مرتبہ پھر علاقائی سفارتکاری کی کامیابی کو اجاگر کیا ہے، جبکہ امریکا کا کردار امن کے عالمی ضامن کے طور پر دوبارہ نمایاں ہوا ہے۔