کابل / نیویارک: اقوام متحدہ کی تازہ رپورٹ میں افغانستان میں القاعدہ اور تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) جیسے دہشت گرد گروہوں کی موجودگی اور سرگرمیوں کے ناقابلِ تردید شواہد سامنے آ گئے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ گروہ افغانستان کے مختلف صوبوں میں آزادانہ طور پر متحرک ہیں اور وسطی ایشیا اور خطے کے امن کے لیے ایک بڑا خطرہ بن چکے ہیں۔
رپورٹ کا پس منظر
یہ رپورٹ اقوام متحدہ کی تجزیاتی معاونت اور پابندیوں کی نگران ٹیم نے 24 جولائی 2025 کو سیکیورٹی کونسل میں پیش کی۔
یہ اپنی نوعیت کی 36ویں رپورٹ ہے جس میں افغانستان میں موجود دہشت گرد گروہوں کے نیٹ ورکس اور سرگرمیوں کا تفصیلی تجزیہ کیا گیا ہے۔
القاعدہ اور ٹی ٹی پی کو “کھلی چھوٹ” — رپورٹ کا انکشاف
رپورٹ کے صفحہ نمبر 16 میں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ افغانستان کی موجودہ اتھارٹی نے دہشت گرد گروہوں، بالخصوص القاعدہ اور اس کے اتحادیوں کو کارروائیوں کے لیے کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔
یہ گروہ غزنی، ہلمند، قندھار، کنڑ، ارزگان اور زابل کے صوبوں میں سرگرم ہیں، جہاں ان کے محفوظ ٹھکانے اور تربیتی مراکز قائم ہیں۔
القاعدہ کے نئے تربیتی مراکز اور ٹی ٹی پی کا نیٹ ورک
اقوام متحدہ کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ افغانستان میں القاعدہ کے کئی تربیتی کیمپ فعال ہیں —
جن میں سے تین نئے مراکز ایسے ہیں جہاں القاعدہ اور تحریکِ طالبان پاکستان (فتنہ الخوارج) کے جنگجوؤں کو عسکری اور تخریبی تربیت دی جا رہی ہے۔
رپورٹ کے پیراگراف 19 کے مطابق:
“ٹی ٹی پی کے پاس تقریباً 6,000 جنگجو موجود ہیں جنہیں جدید ہتھیاروں اور گولہ بارود تک براہِ راست رسائی حاصل ہے، جس سے ان کے حملے مزید ہلاکت خیز ہو چکے ہیں۔”
علاقائی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ
اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ افغانستان میں دہشت گرد گروہوں کی بڑھتی سرگرمیاں علاقائی سلامتی، استحکام اور پائیدار امن کے لیے سنگین خطرہ ہیں۔
رپورٹ میں زور دیا گیا ہے کہ:
“ان گروہوں کو فراہم کی جانے والی پناہ، تربیت اور سہولت کاری کے نیٹ ورکس کو ختم کیے بغیر خطے میں امن ممکن نہیں۔”
ماہرین کی رائے
علاقائی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ رپورٹ اس تاثر کو مضبوط کرتی ہے کہ افغانستان دہشت گرد تنظیموں کے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ بنتا جا رہا ہے، جو مستقبل میں پاکستان، وسطی ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ کے امن کے لیے چیلنج بن سکتی ہے۔