اسلام آباد: وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے کہا ہے کہ تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے ساتھ آخری منٹ تک مذاکرات جاری رہے، تاہم ہر بار ان کی شرائط میں اضافہ ہوتا گیا۔
اسلام آباد میں وفاقی کابینہ اجلاس کے بعد وفاقی وزرا کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے محسن نقوی نے کہا کہ
“مذاکرات ان کے نکلنے سے پہلے سے آخری منٹ تک ہوتے رہے، مذہبی جماعت کے اعلیٰ عہدیداران خود بتائیں گے کہ مذاکرات ہوئے۔ ہر بار انہیں یہی کہا گیا کہ واپس چلے جائیں، آپ کو کچھ نہیں کہا جائے گا، لیکن ہر مرتبہ ان کی شرائط بڑھتی گئیں۔”
انہوں نے کہا کہ
“کوئی ان سے پوچھے کہ کیا ان کی شرائط فلسطین کے لیے تھیں؟ ان کی ریلی فلسطین کے لیے تھی یا کچھ لوگوں کی رہائی کے لیے؟ ‘لبیک یا رسول اللہ ﷺ’ صرف ان کا نعرہ نہیں، یہ ہم سب کا نعرہ ہے۔”
پرتشدد عناصر کے خلاف آپریشن، علما و مدارس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں
وزیر داخلہ نے کہا کہ
“اس دن صرف ان کے خلاف ایکشن ہوا جنہوں نے تشدد کیا، سڑکیں کھلوانے والے شاباش کے مستحق ہیں۔ اُس مسلح جتھے نے گھروں اور مساجد کے میناروں پر پوزیشنیں سنبھال رکھی تھیں۔”
انہوں نے واضح کیا کہ
“سوائے مذہبی جماعت کے عہدیداران کے، کسی بھی مدرسے یا علما کے خلاف کوئی ایکشن نہیں ہو رہا۔ کل اظہارِ تشکر منایا جائے گا، کوئی احتجاج نہیں ہوگا۔ کسی مذہبی جماعت یا عالمِ دین کو تنگ کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔”
احتجاج کرنا حق ہے، املاک کو نقصان پہنچانے کا حق نہیں — عطا تارڑ
وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے پریس کانفرنس میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ
“فلسطینی جنگ بندی پر سجدہ ریز ہیں اور یہاں ہم احتجاج کر رہے ہیں، ایس ایچ او کو گاڑی سے نکال کر 21 گولیاں ماری گئیں۔ دنیا بھر میں احتجاج ہوئے لیکن ایک پتا تک نہیں گرا۔ احتجاج کرنا سب کا حق ہے مگر کسی کو املاک کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں۔”
کسی مسجد، مدرسے یا عالم دین کے خلاف کارروائی نہیں ہو رہی — سردار یوسف
وفاقی وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف نے کہا کہ
“فلسطین کا مسئلہ پوری امتِ مسلمہ کا مسئلہ ہے، اب اللہ کے فضل سے امن معاہدہ ہو گیا ہے اور اس میں پاکستان کا بھی کردار ہے۔”
انہوں نے کہا کہ
“پرامن احتجاج جمہوری حق ہے لیکن کسی کو قتل و غارت یا نجی املاک کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ مذہبی جماعت کے جتھے میں کوئی علما شامل نہیں تھے، وہ پولیس پر گولیاں چلا رہے تھے۔ حکومت کی کارروائی صرف انہی پرتشدد عناصر کے خلاف ہے، کسی مسجد، مدرسے یا عالمِ دین کو نشانہ نہیں بنایا جا رہا۔”