واشنگٹن / غزہ: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کو سخت الفاظ میں دھمکی دی ہے اور خبردار کیا ہے کہ اگر غزہ میں قتل و خون کا سلسلہ جاری رہا تو امریکا کے پاس وہاں جا کر حماس کو خاتمہ کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں بچے گا۔
صدر ٹرمپ نے یہ پیغام سوشل میڈیا اور پریس بیانات میں دیا، اور کہا کہ اگر حماس غزہ میں لوگوں کا قتل عام بند نہیں کرتی تو “ہمیں اندر جا کر انہیں ختم کرنا ہوگا” — تاہم بعد میں ان کی جانب سے یہ واضح کیا گیا کہ وہ براہِ راست امریکی فوج نہیں بھیجیں گے، بلکہ ان کا اشارہ ممکنہ طور پر خطے کے اتحادیوں یا دیگر آپشنز کی طرف تھا۔
عرب و بین الاقوامی میڈیا کے مطابق ٹرمپ کے بیان کا حوالہ بالخصوص غزہ کے اندر جاری اندرونی تشدد اور مسلح گروہوں کے بیچ جھڑپوں سے جوڑا جا رہا ہے۔ امریکی و اسرائیلی حکام نے گزشتہ روز بھی حماس کو مصر میں طے شدہ امن معاہدے کی پاسداری کا پابند کیا تھا اور انتباہ دیا کہ معاہدے کی خلاف ورزی کی صورت میں سخت کارروائی عمل میں لائی جا سکتی ہے۔
حماس نے باور کرایا ہے کہ وہ معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کر رہی اور صدر ٹرمپ کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ تنظیم اپنی ذمہ داریاں نبھا رہی ہے۔ حماس کے حامی حلقوں نے بھی بتایا ہے کہ اندرونی معاملات اور مقتولین کے حوالے سے مختلف بیانات سامنے آ رہے ہیں اور صورتِ حال کی واضح تصویر دینا مشکل ہے۔
بین الاقوامی صحافیوں اور تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ ٹرمپ کا لہجہ اس ہفتے امن عمل کے تناظر میں ایک واضح موڑ دکھاتا ہے، کیونکہ سابقہ بیانات میں انہوں نے حماس کے خلاف ایک نرم رویّہ بھی دکھایا تھا۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ ایسے بیانات خطے میں کشیدگی بڑھا سکتے ہیں اور امن عمل کو پیچیدہ بنا سکتے ہیں۔
عالمی و علاقائی رد عمل اور امکانات
• متعدد بین الاقوامی ادارے اور بعض ممالک نے کشیدگی کم کرنے اور مذاکرات کے ذریعے مسائل حل کرنے کی اپیل کی ہے، کیونکہ براہِ راست عسکری مداخلت سے گراؤنڈ ریئلٹیز (جس میں شہری اموال و جانوں کا نقصان شامل ہے) خطرناک حد تک بگڑ سکتی ہیں۔
• بعض تجزیہ کار یہ بھی کہتے ہیں کہ اگرچہ صدر نے سخت زبان استعمال کی، مگر عملی طور پر امریکا کی فورسز غزہ میں براہِ راست داخل ہونے کے امکان پر سفارتی و عملی رکاوٹوں کا سامنا کریں گی۔ اسی بنیاد پر امریکہ ممکنہ طور پر علاقائی شراکت داروں کے ذریعے دباؤ یا کارروائی کی حمایت دے سکتا ہے۔