اسلام آباد – سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے نے ملک میں سیاسی ہلچل پیدا کر دی۔ آٹھ رکنی بینچ نے اپنے فیصلے میں ارکانِ اسمبلی کو یہ موقع دیا کہ اگر کوئی یہ کہنا چاہے کہ وہ تحریکِ انصاف کا رکن نہیں ہے، تو وہ تحریری طور پر عدالت میں اس بات کو جھٹلا سکتا ہے۔
فیصلے کے اگلے ہی دن تحریکِ انصاف سے تعلق رکھنے والے تمام 41 ارکانِ اسمبلی نے عدالت میں حلف نامے (ایفی ڈیوڈز) جمع کروائے، جن میں انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ وہ آج بھی پاکستان تحریکِ انصاف کا حصہ ہیں اور اپنی جماعت کے ساتھ کھڑے ہیں۔
یہ واضح موقف ان تمام افواہوں اور پروپیگنڈا کو رد کر گیا جن میں کہا جا رہا تھا کہ پی ٹی آئی کے ارکان نے پارٹی چھوڑ دی ہے یا اپنی وفاداریاں بدل چکے ہیں۔
معروف وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ سپریم کورٹ نے اگرچہ ارکان کو ایک قانونی راستہ دیا، لیکن ان ارکان نے اگلے ہی دن اس راستے کو بند کر دیا اور کھل کر اعلان کیا کہ وہ عمران خان کی جماعت سے ہی وابستہ ہیں۔
یہ صورتحال کئی اہم سوالات کو جنم دے رہی ہے:
سپریم کورٹ کے آٹھ معزز ججز آخر کس بنیاد پر اس نتیجے پر پہنچے کہ ارکانِ اسمبلی اپنی جماعت سے انکاری ہو سکتے ہیں؟
کیا یہ تاثر کسی اندرونی رپورٹ یا دباؤ کا نتیجہ تھا؟
یا کچھ مخصوص اداروں کی طرف سے ایسی فضا بنائی گئی تھی جس نے عدالت کو ایسا فیصلہ دینے پر مجبور کیا؟
جو بھی وجوہات ہوں، 41 ارکانِ اسمبلی کا یہ اجتماعی فیصلہ واضح پیغام ہے کہ وہ نہ تو خوفزدہ ہیں اور نہ ہی اپنی شناخت سے انکار کرنے کو تیار۔
آٹھ ججز کو کس نے سوچنے پر مجبور کر دیا؟ تحریکِ انصاف کے 41 ارکان کا واضح اعلان: ہم پی ٹی آئی ہی ہیں!
2.7K