ماسکو: روس نے یوکرین کے ساتھ امن معاہدے سے متعلق امید ختم ہونے کا باضابطہ اعلان کر دیا ہے، جبکہ روسی نائب وزیرِ خارجہ نے کہا ہے کہ ٹرمپ اور پیوٹن ملاقات سے پیدا ہونے والی امن کی رفتار اب مکمل طور پر ختم ہو چکی ہے۔
امن کی کوششیں ناکامی سے دوچار
روسی نائب وزیرِ خارجہ کے مطابق ٹرمپ–پیوٹن ملاقات کے بعد جو امن کی کوششیں شروع ہوئی تھیں وہ اب ناکامی سے دوچار ہو چکی ہیں۔
انہوں نے الزام عائد کیا کہ یورپی ممالک امن مذاکرات میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں، کیونکہ ان کا مقصد امن نہیں بلکہ جنگ کو طول دینا ہے۔
انہوں نے کہا:
“یورپ آخری یوکرینی تک جنگ جاری رکھنا چاہتا ہے، اور یوکرین تنازع نے امریکا اور روس کے تعلقات کو بھی شدید نقصان پہنچایا ہے۔”
روس کی یوکرین میں پیش قدمی میں تیزی
دوسری جانب روس نے یوکرین میں اپنی فوجی پیش قدمی تیز کر دی ہے۔
روسی وزارتِ دفاع نے دعویٰ کیا ہے کہ خارکیف کے شہر کوپیانسک میں روسی فوج نے دوتہائی عمارتوں پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے،
جبکہ یوکرینی فورسز شمال اور مغرب سے گھیرے میں ہیں۔
روسی فوج کا کہنا ہے کہ کوپیانسک پر مکمل کنٹرول کے بعد ڈونباس کے اہم علاقوں تک رسائی کا راستہ کھل جائے گا۔
یوکرینی جوابی کارروائیاں اور امریکی ہتھیاروں کی ڈیل
یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے اعلان کیا ہے کہ امریکا کے ساتھ جدید ڈرونز اور طویل فاصلے والے میزائلوں کی ایک بڑی دفاعی ڈیل پر کام جاری ہے۔
یہ پیش رفت ایسے وقت میں ہوئی ہے جب یوکرین نے ماسکو کے قریب یاروسلاول میں روس کی سب سے بڑی آئل ریفائنری کو ڈرون حملے میں نشانہ بنایا۔
اس حملے کے بعد روس کو ایندھن کی قلت کا سامنا ہے، جبکہ روسی خبر ایجنسیوں کے مطابق ماسکو نے رواں سال کے دوران یوکرین کے 4 ہزار 700 مربع کلومیٹر رقبے پر قبضے کا دعویٰ کیا ہے۔
عالمی ردِعمل
بین الاقوامی مبصرین کے مطابق، جنگ کے حالیہ مرحلے میں فریقین کے درمیان کشیدگی میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے،
جبکہ سفارتی حلقوں نے خبردار کیا ہے کہ اگر امن مذاکرات بحال نہ ہوئے تو یورپ میں تنازع ایک بڑے انسانی بحران میں تبدیل ہو سکتا ہے۔