لندن میں منظم نیٹ ورک کے ذریعے موبائل فون چوری — سالانہ 80 ہزار سے زائد کیسز، گرفتاریاں محض چند سو

لندن: میٹروپولیٹن پولیس نے انکشاف کیا ہے کہ لندن میں گزشتہ سال 80,000 سے زائد موبائل فون چوری اور چھینے گئے — اور اب یہ وارداتیں مقامی جرائم نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر منظم نیٹ ورک کی شکل اختیار کر گئی ہیں۔

میٹروپولیٹن پولیس کی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ گزشتہ سال شہر میں 80 ہزار سے زائد موبائل فون چوری یا چھینے جانے کے کیسز رپورٹ ہوئے، اور زیادہ تر چوری شدہ فون غیر ملکی منڈیوں میں بھیجے جا رہے تھے۔ پولیس کے مطابق یہ کارروائیاں اب ایک صنعتی درجے کے منظم کاروبار کا حصہ بن چکی ہیں۔

پولیس کی جانب سے شمالی لندن میں گزشتہ ماہ کی گئی چھاپہ مار کارروائیوں میں تقریباً 2,000 چوری شدہ فونز اور 7 کروڑ 49 لاکھ روپے (تقریباً £200,000) نقدی برآمد کی گئی۔ یہ کارروائیاں اُن دکانداروں اور درمیانی سطح کے خریداروں کے خلاف کی گئیں جو چوری شدہ فونز کو ہانگ کانگ، چین اور الجزائر جیسی منڈیوں تک پہنچانے والے نیٹ ورک کا حصہ ہیں۔

پولیس کا کہنا ہے کہ یہ نیٹ ورک تین درجوں پر مبنی ہے: نچلا درجہ وہ چور ہیں جو عموماً ای-بائیکس پر سوار ہو کر فون چھینتے ہیں؛ درمیانہ درجہ وہ دکاندار اور خریدار ہیں جو یہ فون خرید کر بیچتے ہیں؛ اور اعلیٰ درجہ وہ ایکسپورٹرز ہیں جو فونز کو غیر ملکی منڈیوں میں برآمد کرتے ہیں۔

میٹروپولیٹن پولیس کے سینئر ڈیٹیکٹو مارک گوئن نے کہا:
“یہ جرم کسی انفرادی چور کا کام نہیں بلکہ صنعتی پیمانے پر منظم کاروبار ہے۔ چوری شدہ فونز غیر ملکی منڈیوں میں پانچ ہزار ڈالر تک فروخت ہو سکتے ہیں۔”

پولیس کو یہ نیٹ ورک تب بے نقاب کرنے میں مدد ملی جب پچھلے دسمبر میں ایک خاتون نے اپنے فون کی لوکیشن ایپ کے ذریعے ہیتھرو ائیرپورٹ کے قریب ایک گودام کا سراغ لگایا۔ وہاں سے ہانگ کانگ روانہ ہونے والے کنٹینرز میں تقریباً 1,000 چوری شدہ آئی فونز برآمد کیے گئے۔ بعد ازاں پٹنی کے ایک اسٹور روم میں بھی پولیس کے قبضے میں 4,000 آئی فونز رکھے گئے پائے گئے ہیں جو دسمبر سے اب تک ضبط کیے گئے۔

اعداد و شمار کے مطابق 2023 میں لندن میں 64,000 فون چوری ہوئے، جو 2024 میں بڑھ کر 80,000 ہو گئے۔ مزید یہ کہ مارچ 2024 سے فروری 2025 کے درمیان ایک لاکھ سے زائد فون چوری کے کیسز رپورٹ ہوئے، جب کہ اُس دوران صرف 495 افراد پر فردِ جرم عائد کی گئی — یعنی ہر 200 کیسز میں صرف ایک میں قانونی کارروائی ہوئی۔

پچھلے مہینے کی کارروائیوں میں £40,000 نقدی اور 5 چوری شدہ فون موقع پر برآمد ہوئے، جبکہ دیگر چھاپوں میں بھی بڑی مقدار میں چوری شدہ آلات برآمد کیے گئے۔ پولیس کے مطابق یہ جرائم “انتہائی منافع بخش اور کم خطرہ” ہیں — ایک عام چور ایک فون سے اوسطاً £300 کماتا ہے، جو کم از کم اجرت سے تقریباً تین گنا زیادہ ہے۔

کیمبرج یونیورسٹی کے پروفیسر لارنس شرمین کا کہنا تھا:
“جب ایک فون کی قیمت ہزار پاؤنڈ ہو تو سڑک پر اسے ہاتھ میں پکڑ کر چلنا ایسے ہی ہے جیسے جیب سے ہزار پاؤنڈ نکال کر ہوا میں لہرانا۔”

پولیس نے نشاندہی کی ہے کہ چور ای-بائیکس پر سوار ہو کر تیز حملے کر کے فرار ہو جاتے ہیں، اور مصروف سڑکوں پر اُن کا پیچھا کرنا پیدل چلنے والوں کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے — یہی وجہ ہے کہ شناخت اور گرفتاری مشکل ثابت ہو رہی ہے۔

مجموعی طور پر پولیس کی تحقیقات سے پتا چلتا ہے کہ لندن میں موبائل فونز کی چوری محض سڑک پر ہونے والی وارداتیں نہیں رہیں — بلکہ تاجر، درمیانے درجے کے خریدار اور درآمدی راستے مل کر ایک بین الاقوامی سپلائی چین تشکیل دے چکے ہیں جس کی روک تھام کے لیے مربوط قومی اور بین الاقوامی کوششیں درکار ہوں گی۔ میٹروپولیٹن پولیس نے مزید چھان بین اور بین الاقوامی تعاون جاری رکھنے کا عندیہ دیا ہے۔

Related posts

اسرائیلی انتہاپسند وزیر کا سعودی عرب پر طنز: “اگر فلسطینی ریاست شرط ہے تو اونٹوں پر سواری جاری رکھیں”

آئی ایم ایف کا پاکستان کی نئی گندم پالیسی پر اعتراض، کم از کم امدادی قیمت پر تحفظات

ٹرمپ کا مقبوضہ مغربی کنارہ اسرائیل میں ضم کرنے کی مخالفت، نیتن یاہو کو غزہ پر حملے سے روکا