واشنگٹن: امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز نے انکشاف کیا ہے کہ اسرائیلی وزیرِ اعظم بنجمن نیتن یاہو ممکنہ طور پر غزہ امن معاہدے سے پیچھے ہٹنے کا ارادہ رکھتے ہیں، جس پر ٹرمپ انتظامیہ میں شدید تشویش پائی جا رہی ہے۔
رپورٹ کے مطابق، امریکی حکومت کی حکمتِ عملی یہ ہے کہ نیتن یاہو کو حماس کے خلاف دوبارہ فوجی کارروائی سے روکا جائے اور غزہ جنگ بندی معاہدے کو ہر صورت برقرار رکھا جائے۔
وائٹ ہاؤس حکام نے تصدیق کی ہے کہ امریکی نائب صدر جے ڈی وینس کا حالیہ اسرائیل کا دورہ نیتن یاہو پر جنگ بندی کی پاسداری کے لیے دباؤ ڈالنے کے مقصد سے کیا جا رہا ہے۔ حکام کے مطابق یہ دورہ علامتی اہمیت بھی رکھتا ہے اور ظاہر کرتا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ امن معاہدے کو برقرار رکھنے کے لیے پرعزم ہے۔
ذرائع کے مطابق صدر ٹرمپ کے داماد جیئرڈ کشنر اور امریکی مشرقِ وسطیٰ کے ایلچی اسٹیو وٹکوف پہلے ہی اسرائیل پہنچ چکے ہیں، جہاں وہ نیتن یاہو سمیت اعلیٰ اسرائیلی حکام کے ساتھ جنگ بندی معاہدے پر عمل درآمد کے حوالے سے بات چیت کر رہے ہیں۔
ایک اعلیٰ امریکی اہلکار نے بتایا کہ کشنر اور وٹکوف دونوں کا خیال ہے کہ جنگ بندی کا معاہدہ “ٹوٹنے کے خطرے سے دوچار” ہے، اور ان کی کوشش ہے کہ نیتن یاہو کو غزہ میں فوجی آپریشن دوبارہ شروع کرنے سے روکا جائے۔
نیویارک ٹائمز کے مطابق، دونوں امریکی ایلچیوں کی گفتگو کا محور ان نازک نکات پر ہے جو ابتدائی معاہدے میں واضح نہیں کیے گئے تھے، جن میں غزہ میں استحکام برقرار رکھنے والی فورس کی تشکیل اور حماس کا غیر مسلح کیا جانا شامل ہیں۔
واضح رہے کہ اتوار کے روز اسرائیل نے غزہ کی پٹی پر فضائی حملے کیے تھے، جن میں کم از کم 44 فلسطینی جاں بحق ہوئے۔
اسرائیلی فوج کا دعویٰ تھا کہ حماس نے جنوبی شہر رفح میں اس کی فوج پر حملہ کیا، تاہم حماس نے الزام کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ وہ جنگ بندی معاہدے پر مکمل طور پر عمل پیرا ہے۔