یروشلم / واشنگٹن / انقرہ: اسرائیل نے واضح کیا ہے کہ وہ امریکی منصوبے کے تحت غزہ میں ترک فوج کی تعیناتی کو کسی صورت قبول نہیں کرے گا۔
ہنگری میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے اسرائیلی وزیرِ خارجہ گیڈیون سار نے کہا کہ
“جو ممالک غزہ میں اپنی فوج بھیجنے کے لیے تیار ہیں، انہیں کم از کم اسرائیل کے ساتھ منصفانہ رویہ اختیار کرنا چاہیے۔”
انہوں نے کہا کہ ترک صدر رجب طیب اردوان کی قیادت میں ترکی نے اسرائیل کے خلاف “دشمانہ مؤقف” اپنایا ہے، لہٰذا اسرائیل کے لیے یہ ناقابلِ قبول ہوگا کہ وہ ترک افواج کو غزہ کی پٹی میں داخل ہونے دے۔
گیڈیون سار نے مزید کہا کہ اس موقف سے امریکی حکام کو بھی آگاہ کر دیا گیا ہے۔
گزشتہ ہفتے بھی اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامین نیتن یاہو نے عندیہ دیا تھا کہ وہ غزہ میں ترک سکیورٹی فورسز کے کسی بھی کردار کی سخت مخالفت کریں گے۔
ان کے مطابق یہ فیصلہ اسرائیل کرے گا کہ کن غیر ملکی افواج کو غزہ میں داخلے کی اجازت دی جائے۔
بین الاقوامی فورس پر امریکی مؤقف
امریکی وزیرِ خارجہ مارکو روبیو نے جمعے کے روز اسرائیل اور غزہ کے دورے کے موقع پر کہا کہ
“غزہ میں بین الاقوامی فورس ان ممالک پر مشتمل ہونی چاہیے جن پر اسرائیل کو اطمینان ہو۔”
خبر ایجنسی کے مطابق، ٹرمپ انتظامیہ نے غزہ میں امریکی فوجی بھیجنے سے انکار کیا ہے، تاہم وہ انڈونیشیا، متحدہ عرب امارات، مصر، قطر، ترکی اور آذربائیجان سے بات چیت کر رہی ہے تاکہ یہ ممالک مجوزہ فورس میں اپنا کردار ادا کریں۔
پاکستانی فوجیوں کی ممکنہ شمولیت – اسرائیلی میڈیا کا دعویٰ
اسرائیلی اخبار ٹائمز آف اسرائیل نے دعویٰ کیا ہے کہ غزہ میں استحکام قائم کرنے کے لیے بنائی جانے والی بین الاقوامی فورس میں پاکستانی فوجی دستے بھی شامل ہوسکتے ہیں۔
اسرائیلی ویب سائٹ وائی نیٹ نیوز کے مطابق، اسرائیلی پارلیمنٹ کی خارجہ و دفاعی کمیٹی کو دی گئی ایک بریفنگ میں بتایا گیا کہ اس فورس میں پاکستان، انڈونیشیا اور آذربائیجان کے فوجی شامل ہوں گے۔
رپورٹ کے مطابق، انڈونیشیا پہلے ہی اپنی فوج بھیجنے کی پیشکش کر چکا ہے، جب کہ آذربائیجان نے بھی آمادگی ظاہر کی ہے۔ تاہم، پاکستان کی ممکنہ شمولیت سے متعلق تاحال کوئی باضابطہ اعلان یا تصدیق سامنے نہیں آئی۔
پاکستانی حکومت کا ردعمل
گزشتہ روز وفاقی وزیرِ اطلاعات عطااللہ تارڑ نے غزہ میں پاکستانی افواج کی ممکنہ تعیناتی سے متعلق سوال پر کہا کہ
“اس بارے میں وزارتِ خارجہ ہی مؤقف دے گی۔”
پاکستان کی وزارتِ خارجہ کی جانب سے ابھی تک اس حوالے سے کوئی سرکاری بیان جاری نہیں کیا گیا۔