اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی تجزیاتی معاونت اور پابندیاں مانیٹرنگ ٹیم کی 16ویں رپورٹ میں افغان طالبان کے اس دعوے کو غیر معتبر قرار دے دیا گیا ہے کہ افغان سرزمین دہشتگرد گروہوں کی جانب سے سرحد پار حملوں کے لیے استعمال نہیں ہو رہی۔
رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ خطے کے ممالک افغانستان کو بتدریج بڑھتی ہوئی علاقائی عدم استحکام کا منبع سمجھنے لگے ہیں، جو سیکیورٹی خدشات میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے مطابق متعدد رکن ممالک نے اطلاع دی ہے کہ داعش خراسان، تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)، القاعدہ، ترکستان اسلامی پارٹی، جماعت انصاراللہ اور دیگر شدت پسند گروہ افغانستان میں سرگرم ہیں، جب کہ بعض گروہ بیرونی حملوں کی منصوبہ بندی بھی کر رہے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ القاعدہ کے طالبان کے ساتھ قریبی روابط برقرار ہیں، جب کہ داعش خراسان کو طالبان کا اہم مخالف تصور کیا جاتا ہے۔ سلامتی کونسل کی رپورٹ کے مطابق سب سے بڑا علاقائی خطرہ تحریک طالبان پاکستان کو قرار دیا گیا ہے، جو افغان پناہ گاہوں سے پاکستان میں کارروائیاں کر رہی ہے۔
رپورٹ کے مطابق طالبان قیادت میں ٹی ٹی پی کے معاملے پر اختلاف پایا جاتا ہے۔ کچھ سینئر ارکان ٹی ٹی پی کو پاکستان کے ساتھ تعلقات کے لیے نقصان دہ سمجھتے ہیں، جب کہ دیگر دھڑے اب بھی اس گروہ کی حمایت کرتے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی نے 2025 کے دوران پاکستان میں 600 سے زائد حملے کیے، جن میں سے کئی حملے پیچیدہ نوعیت کے تھے، جب کہ بیشتر خودکش حملہ آور افغان شہری تھے۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ پاکستان نے انسدادِ دہشتگردی کے شعبے میں نمایاں پیشرفت کی ہے، جس میں داعش خراسان کے ترجمان سلطان عزیز اعظم اور دیگر اہم شدت پسند عناصر کی گرفتاری شامل ہے.