انقرہ میں ہنگامی اجلاس: اسرائیل-ایران کشیدگی کے بعد ترکیہ کی اعلیٰ قیادت متحرک

انقرہ (ویب ڈیسک) – مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل اور ایران کے درمیان شدید کشیدگی کے بعد ترکیہ میں اعلیٰ سطح کی ہنگامی میٹنگ انقرہ میں منعقد ہوئی جس میں وزیر دفاع، وزیر خارجہ، انٹیلی جنس چیف اور چیف آف جنرل اسٹاف نے شرکت کی۔ ذرائع کے مطابق یہ اجلاس آج صبح اسرائیل کی جانب سے ایران کی جوہری اور عسکری تنصیبات پر غیرمعمولی حملوں کے بعد بلایا گیا۔ حملوں میں ایرانی پاسداران انقلاب کے سینئر افسران اور جوہری سائنسدانوں کی ہلاکت کی اطلاعات ہیں جنہیں ایران نے ’’اعلانِ جنگ‘‘ قرار دیا ہے۔

ترکیہ کی قیادت نے صورتحال کی سنگینی کو مدِنظر رکھتے ہوئے فوری ردِعمل دیا اور قومی سلامتی، علاقائی استحکام اور ممکنہ خطرات کا جائزہ لینے کے لیے اعلیٰ سطح کا اجلاس طلب کیا۔ اجلاس میں خطے کی تازہ صورتحال پر تفصیلی غور کیا گیا اور ترکیہ کی سلامتی کو درپیش ممکنہ خطرات سے نمٹنے کے لیے مختلف آپشنز پر بات چیت ہوئی۔ ترکیہ نے اپنی فضائی و زمینی حدود کی نگرانی مزید سخت کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور افواج کو ہائی الرٹ پر رہنے کی ہدایات جاری کی گئی ہیں۔

انقرہ میں ہونے والے اس اجلاس میں قومی انٹیلی جنس ادارے (MIT) نے داخلی سلامتی کو لاحق خطرات پر بریفنگ دی اور ممکنہ سائبر یا دہشت گرد حملوں سے نمٹنے کے لیے فوری حفاظتی اقدامات تجویز کیے۔ وزیر خارجہ نے اجلاس کے دوران سفارتی سطح پر مؤثر اقدامات کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ ترکیہ بین الاقوامی فورمز پر اس حملے کی مذمت کرے گا اور مسلم دنیا کو ایک صفحے پر لانے کی کوشش کرے گا تاکہ خطے میں قیامِ امن کو یقینی بنایا جا سکے۔

اجلاس میں یہ بھی زیر غور آیا کہ ترکیہ ماضی کی طرح ایک بار پھر اسرائیل اور ایران کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔ ترکیہ کی قیادت نے واضح کیا ہے کہ اگر عالمی برادری نے فوری اقدامات نہ کیے تو یہ کشیدگی پورے خطے کو جنگ کی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ ترکیہ اس صورتحال کو سنجیدگی سے لے رہا ہے اور ہر سطح پر اقدامات کا آغاز کیا جا چکا ہے۔ اس ضمن میں پناہ گزینوں کی ممکنہ آمد، انسانی ہمدردی کی امداد، اور امن کوششوں کے امکانات پر بھی بات چیت ہوئی۔

حکومتی ذرائع کے مطابق اس اجلاس کے فیصلوں کی روشنی میں ترکیہ جلد ایک جامع اعلامیہ جاری کرے گا جس میں آئندہ کا لائحہ عمل اور قومی مؤقف واضح کیا جائے گا۔ انقرہ کا ماننا ہے کہ طاقت کے بجائے بات چیت اور ڈپلومیسی کے ذریعے ہی مسائل کا دیرپا حل ممکن ہے، اور اسی فلسفے کے تحت ترکیہ ایک فعال اور باوقار کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔

Related posts

انتہا پسند اسرائیلی وزرا کا غزہ پر جنگ کی واپسی کے لیے حکومت پر دباؤ

طالبان حکومت کا جبر: پاکستان مخالف پروپیگنڈا سے انکار پر افغان نیوز چینل شمشاد کی نشریات بند

حماس نے امریکی محکمہ خارجہ کے الزامات مسترد کر دیے، جنگ بندی کی خلاف ورزی سے انکار