دنیا توانائی اور ماحولیاتی اہداف کے حصول کیلئے سرمایہ کاری کرے: عاصم افتخار

اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب سفیر عاصم افتخار احمد نے قرضوں کی ادائیگی کے بحران سے دوچار ترقی پذیر ممالک کے لیے مالی گنجائش بڑھانے اور توانائی کی ضروریات پوری کرنے کیلئے فنڈنگ پر زور دیا ہے۔

سفیر عاصم افتخار احمد نے (SDG7) توانائی کی پیشرفت کی رپورٹ 2025 اور پالیسی بریفز برائے ہائی لیول پولیٹیکل فورم 2025 کے اجرا کے موقع پر خطاب کیا۔ 

انہوں نے کہا کہ مالی وسائل کی کمی ترقی پذیر دنیا کی توانائی کی بڑھتی ہوئی ضروریات پوری کرنے کی صلاحیت کو محدود کر رہی ہے۔

یہ ایونٹ گروپ آف فرینڈز آن سسٹین ایبل انرجی کے شریک میزبانوں نے پاکستان، ناروے، ایتھوپیا اور ڈنمارک کے مستقل مشنز کے ساتھ مل کر منعقد کیا تھا۔

سفیر عاصم افتخار نے کہا کہ 2024 میں پاکستان میں تقریباً 4 کروڑ افراد کو بجلی تک رسائی حاصل نہ تھی۔ ہم صاف توانائی کے اہداف کے لیے پرعزم ہیں۔ ہمارا ہدف ہے کہ 2030 تک 60 فیصد بجلی قابلِ تجدید ذرائع سے حاصل کی جائے۔ ہمارا توانائی منصوبہ 13 گیگاواٹ نیا ہائیڈرو پاور شامل کرنے کا ہے، جبکہ نیوکلیئر انرجی بھی قابلِ اعتماد اور کم کاربن بیس لوڈ فراہم کر رہی ہے۔

اقوام متحدہ کی مختلف رپورٹس کا حوالہ دیتے ہوئے، سفیر عاصم افتخار احمد نے کہا کہ اگرچہ پائیدار ترقی کے ہدف 7 (SDG7) کے حصول کی طرف پیش رفت ہوئی ہے، لیکن یہ اب بھی غیر مساوی ہے اور دنیا بھر میں 675 ملین سے زائد افراد اب بھی بجلی سے محروم ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں ایک ساتھ توانائی تک رسائی کا خلا پُر کرنا ہوگا، توانائی کے نظام کو ڈی کاربنائز کرنا ہوگا اور کارکردگی میں اضافہ کرنا ہوگا اور یہ سب کچھ مساوی، منصفانہ اور جامع طریقے سے ہونا چاہیے۔

انہوں نے دنیا پر زور دیا کہ وہ 2030 تک توانائی اور ماحولیاتی اہداف کے حصول کے لیے سالانہ 4.3 ٹریلین امریکی ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کرے۔ تاہم  انہوں نے واضح کیا کہ اس تناظر میں ترقی پذیر ممالک کے لیے عوامی صاف توانائی کی فنانسنگ صرف 21.6 ارب امریکی ڈالر ہے، جس میں سے 83 فیصد قرضوں پر مشتمل ہے۔

انہوں نے کہا کہ صاف توانائی کی سرمایہ کاری زیادہ تر ترقی یافتہ اور ابھرتی ہوئی معیشتوں میں کی جا رہی ہے اورترقی پذیر ممالک کو اکثر نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔

انہوں نے مسئلے کا حل پیش کرتے ہوئے کہا کہ ترقی پذیر ممالک کے لیے مالی روڈ میپ پر گنجائش بڑھائی جائے۔ساتھ ہی ترقی پذیر ممالک میں ادارہ جاتی صلاحیت میں اضافہ کیا جائے اور صاف توانائی کی سرمایہ کاری کے لیے خطرات کم کرنے کے طریقے اپنائے جائیں۔

مستقل مندوب نے کہا کہ ایسے توانائی حل تیار کیے جائیں جو دیگر فوائد بھی فراہم کریں، جیسے پاکستان میں سیلاب کے بعد سولر کٹس کی تقسیم، جس سے بجلی کی بحالی، نقل و حرکت، صحت اور موسمیاتی نتائج بہتر ہوئے۔

انہوں نے بیان کے اختتام پر کہا کہ عالمی توانائی کی منتقلی بلاشبہ جاری ہے، لیکن اگر اس کے لیے منصوبہ بندی اور ہدفی بین الاقوامی مدد فراہم نہ کی گئی تو یہ غیر مساوی اور منقسم ہو سکتی ہے۔ اس لیے سمت درست کریں اور ایسی صاف توانائی کی منتقلی یقینی بنائیں جو کسی کو پیچھے نہ چھوڑے۔

Related posts

ہم چہرے نہیں، نظام بدلنا چاہتے ہیں: حافظ نعیم الرحمان

وفاقی حکومت نے گندم پالیسی 2025–26 کی منظوری دے دی

غذائی دہشت گردوں کے خلاف کڑا اقدام — پنجاب فوڈ اتھارٹی کے ساتھ معزز عدالتوں کا مؤثر کردار