ٹی ایل پی قیادت نے کارکنوں کو پولیس پر حملوں پر اکسایا، ریاست خاموش نہیں رہ سکتی: عظمیٰ بخاری

لاہور: وزیرِ اطلاعات و ثقافت پنجاب عظمٰی بخاری نے کہا ہے کہ تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کی قیادت اپنے کارکنوں کو پولیس پر حملوں کے لیے اکساتی رہی اور اسلحے کے زور پر پولیس کی گاڑیاں چھیننے جیسے واقعات کسی طور قابلِ قبول نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ریاست ایسے اقدامات پر خاموش نہیں رہ سکتی۔

ڈی جی پی آر لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے عظمٰی بخاری نے کہا کہ دنگے اور فساد کو اسلام اور فلسطین کے نام پر جواز دینا نہ صرف گمراہ کن بلکہ مذہب کے تقدس کے ساتھ کھلواڑ ہے۔ ان کے مطابق ٹی ایل پی کے احتجاج میں جعلی لاشوں کا ڈرامہ رچایا گیا تاکہ عوامی ہمدردی حاصل کی جا سکے۔

وزیر اطلاعات نے بتایا کہ ٹی ایل پی کے سربراہ سعد رضوی کے گھر سے سونا، نایاب گھڑیاں، قیمتی اشیاء اور بے نامی جائیدادوں کے ثبوت برآمد ہوئے ہیں، جبکہ ان کے 95 بینک اکاؤنٹس منجمد کر دیے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ٹی ایل پی کو مالی یا سیاسی سہولت دینے والوں کے خلاف دہشت گردی کے مقدمات درج کیے جائیں گے۔

عظمٰی بخاری نے کہا کہ ریاست نے ٹی ایل پی سے متعلق جو فیصلے کیے ہیں، ان پر سختی سے عمل جاری ہے اور وفاق ایک دو روز میں بھیجی گئی سمری پر فیصلہ کرے گا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ مساجد و مدارس کا نظم و نسق محکمہ اوقاف کے زیرِ انتظام لایا جا رہا ہے تاکہ کسی کو مذہب کے نام پر عوامی اشتعال انگیزی کا موقع نہ مل سکے۔ ان کے مطابق ٹی ایل پی کی 130 مساجد حکومتی تحویل میں لی جا چکی ہیں جبکہ 223 مدارس کی جیو ٹیگنگ مکمل ہو چکی ہے۔

عظمٰی بخاری نے واضح کیا کہ باباجی کی قبر کو کہیں منتقل نہیں کیا جا رہا، البتہ اس نام پر چندہ اکٹھا کرنے یا اشتعال انگیزی کی اجازت نہیں ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ ریاست کی کارروائیاں کسی مسلک یا فرقے کے خلاف نہیں بلکہ دہشت گرد ذہنیت کے خلاف ہیں۔

وزیر اطلاعات نے کہا کہ ٹی ایل پی اور تحریکِ فساد ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں، دونوں مذہب کے تقدس کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔ ان کے مطابق، نبی اکرم ﷺ نے کسی کو تکلیف دینا تو دور، بددعا تک نہیں دی، لہٰذا مذہب کے نام پر خون بہانے والے خود کو عاشقِ رسول نہیں کہہ سکتے۔

عظمٰی بخاری نے والدین سے اپیل کی کہ وہ اپنے بچوں کو کسی بھی انتشار یا تشدد کا حصہ نہ بننے دیں، اور خبردار کیا کہ جو نوجوان تخریب کاری میں ملوث پائے گئے، انہیں کسی تعلیمی ادارے، ویزہ یا سرکاری سہولت تک رسائی نہیں دی جائے گی۔

انہوں نے مزید بتایا کہ وزیراعلیٰ پنجاب کے وعدوں پر عمل تیزی سے جاری ہے۔ صوبے کے 15 اضلاع میں سیلاب متاثرین کو مالی امداد کے چیکس کی تقسیم شروع ہو چکی ہے، 33 موبائل پولیس اسٹیشنز قائم کیے گئے ہیں، اور خواتین کے مقدمات کے اندراج کے لیے 7 پنک موبائل اسٹیشنز فعال ہو چکے ہیں۔

وزیر اطلاعات کے مطابق، حکومت انصاف اور قانون کی رسائی کو عوام تک یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہے، تاکہ ریاست میں امن و استحکام برقرار رکھا جا سکے۔

Related posts

وفاقی وزیرداخلہ محسن نقوی کی مفتی اعظم پاکستان مفتی منیب الرحمن سے ملاقات، علما سے اہم گفتگو

تحریک تحفظ آئین پاکستان کے نام سے اتحاد کی رجسٹریشن کی درخواست — متعدد جماعتوں نے لاتعلقی کا اظہار کردیا

الیکشن کمیشن آف پاکستان کا پنجاب میں بلدیاتی انتخابات سے متعلق اہم اجلاس