اسلام آباد: وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ کم عمری کی شادی کو روکنا غیرشرعی نہیں بلکہ یہ بچوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے ضروری اقدام ہے۔
وزیر قانون نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بچیوں کی حفاظت کے لیے شادی کی کم از کم عمر کا قانون قومی شناختی کارڈ سے منسلک ہونا چاہیے، تاکہ اس پر مؤثر طور پر عملدرآمد یقینی بنایا جا سکے۔
ان کا کہنا تھا کہ “دو فیصد آبادی کے حقوق کا تحفظ 98 فیصد کی مرضی پر قربان نہیں کیا جا سکتا۔ ریاست آئین کے تحت چلتی ہے اور ہر قانون کو شریعت سے ہم آہنگ ہونا ضروری ہے۔”
اعظم نذیر تارڑ نے واضح کیا کہ شادی کی عمر کے تعین کا اختیار ریاست کے پاس ہے، سندھ میں یہ قانون 2013 سے نافذ ہے، جبکہ نیشنل اسمبلی نے بھی کم از کم شادی کی عمر سے متعلق بل منظور کر لیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پورے ملک میں یکساں قانون نافذ نہ ہونا تشویشناک ہے، دارالامان میں 13 اور 14 سال کی کمسن بچیوں کے کیسز روز سامنے آرہے ہیں، جو معاشرتی دباؤ اور مجبوری کا نتیجہ ہیں۔
وفاقی وزیر قانون نے مزید کہا کہ کم عمری کی شادی بچیوں پر ذہنی دباؤ اور نفسیاتی تشدد کا باعث بنتی ہے، لہٰذا ہمیں اشاروں میں بات کرنے کے بجائے عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ “خوف اور پردے توڑ کر جرات مندانہ فیصلے کرنے کا وقت آ چکا ہے، قوم تب ہی ترقی کرے گی جب کمزور طبقے کے حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جائے گا۔