اسلام آباد: اگر کوئی معجزہ، سیاسی ڈیل یا عدالتی ریلیف نہ ملا تو عمران خان کی جلد رہائی کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ذرائع کے مطابق، موجودہ صورتحال میں سابق وزیراعظم 2026ء کے دوران، بلکہ ممکنہ طور پر اس کے بعد بھی جیل میں رہ سکتے ہیں۔
پارٹی کے اندرونی ذرائع کے مطابق، پی ٹی آئی کے سخت گیر عناصر اب بھی تصادم کی پالیسی پر قائم ہیں، جبکہ تحمل مزاج رہنما عمران خان کی طویل قید پر شدید تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔ ان کے خیال میں جب تک محاذ آرائی ختم نہیں ہوتی، عمران خان کی رہائی ممکن نہیں۔
القادر ٹرسٹ کیس کی اپیل تاحال سماعت کیلئے مقرر نہیں
ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی القادر ٹرسٹ کیس میں سزا کے خلاف اپیلیں ابھی تک اسلام آباد ہائی کورٹ میں سماعت کیلئے مقرر نہیں ہوئیں۔
ہائی کورٹ کی ’’فکسیشن پالیسی‘‘ کے مطابق، مقدمات کی سماعت ان کے دائر ہونے کی ترتیب سے کی جاتی ہے۔ عدالت پر پہلے سے موجود بیک لاگ اور پرانے مقدمات کی ترجیح کے باعث، القادر ٹرسٹ اپیل کی رواں سال سماعت کے امکانات نہ ہونے کے برابر بتائے جا رہے ہیں۔
14 سال قید کی سزا برقرار، مزید مقدمات زیرِ سماعت
القادر ٹرسٹ کیس میں عمران خان اور ان کی اہلیہ کو 14 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ اگرچہ اپیل 31 جنوری 2024 کو دائر کی گئی، تاہم اب تک سماعت شروع نہیں ہو سکی۔
مزید برآں، توشہ خانہ دوم کیس بھی اپنے آخری مراحل میں داخل ہو چکا ہے، اور اگر اس میں بھی سزا ہو گئی تو عمران خان اور ان کی اہلیہ کو مزید قید کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
9 مئی کے کیسز اور قانونی پیچیدگیاں
ذرائع کا کہنا ہے کہ 9 مئی واقعات سے متعلق مقدمات بھی اب تک زیرِ سماعت ہیں۔ استغاثہ کے پاس ایسے قانونی حربے موجود ہیں جن سے ان کیسز کو طویل کیا جا سکتا ہے۔
پی ٹی آئی کے قانونی ماہرین تسلیم کرتے ہیں کہ اگر کچھ کیسز میں ضمانت یا بریت بھی مل جائے، تو مجموعی طور پر عمران خان کی رہائی میں مزید تاخیر متوقع ہے۔
غیر معمولی پیش رفت ہی رہائی کا راستہ کھول سکتی ہے
قانونی ماہرین کے مطابق، حتیٰ کہ بہترین صورتحال میں بھی عمران خان کو تمام بڑے کیسز میں بری ہونے میں طویل عرصہ لگے گا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ جب تک کوئی غیر معمولی عدالتی یا سیاسی پیش رفت سامنے نہیں آتی، عدالتی کارروائیوں کی رفتار کو دیکھتے ہوئے عمران خان کی قید 2026ء تک، بلکہ اس کے بعد بھی جاری رہ سکتی ہے۔