اسلام آباد: سوشل میڈیا پر ایک اعترافی ویڈیو منظرِ عام پر آئی ہے جس میں مبینہ طور پر افغان خارجی ستوروے خوگیانہ نے پاکستان میں دہشتگردانہ کارروائیوں میں ملوث ہونے کا اعتراف کیا ہے۔ ویڈیو میں ملزم نے اپنے پس منظر، رابطوں اور مبینہ ذمہ داریوں کی تفصیلات بتائیں جن میں کابل میں کالعدم ٹی ٹی پی کے ایک کمانڈر قاری محمد سے رابطے اور ان کے ہاتھ پر بیعت کرنے کا دعویٰ شامل ہے۔
ستوروے نے ویڈیو میں بتایا کہ وہ ننگرہار کا رہائشی ہے، گورنمنٹ کالج حضرت خان (ننگرہار) سے انٹرمیڈیٹ کیا، غزنی یونیورسٹی سے فقہ میں بیچلرز حاصل کیا اور کابل کے مدرسے عبداللہ ابن زبیر میں درس و تدریس سے منسلک رہا۔ اس نے کہا کہ ننگرہار میں ادویات کی ڈلیوری کے کام میں بھی ملازمت کی۔
ملزم نے اعتراف کیا کہ کابل میں اسے کالعدم تنظیم کی جانب سے متعین کمانڈر قاری محمد سے ملوایا گیا، اس کے ہاتھ پر بیعت کی گئی اور بعد ازاں وہ علاج کے لیے پشاور آیا۔ علاج مکمل ہونے کے بعد قاری محمد نے اسے پشاور کے ایک مدرسے میں داخلہ لینے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملوں و ٹارگٹ کلنگ کی منصوبہ بندی میں شمولیت کا حکم دیا — جس دوران ایک مخصوص عالم دین کو نشانہ بنانے کا منصوبہ بنا تو وہ گرفتار ہو گیا، اس کا اقرار ویڈیو میں شامل ہے۔
حکومتی ردِعمل اور تصدیق کی ضرورت
فی الحال یہ بات واضح نہیں کہ ملزم کس ادارے کے ہاتھوں سے گرفتار ہوا یا کن حکام نے اس اعترافی ویڈیو جاری کی ہے۔ اس طرح کے بیانات میں شواہد، گرفتاری کی تفصیلات اور قانونی کاروائی کی تصدیق ضروری ہوتی ہے — اس لیے متعلقہ وفاقی اور صوبائی سیکورٹی اداروں اور پراسیکیوشن سے باضابطہ اطلاع درکار ہے۔ بین الاقوامی اور مقامی میڈیا میں ایسی ویڈیوز ماضی میں بھی منظرِ عام پر آئی ہیں؛ بعض اوقات ان کے مندرجات کی آزاد تصدیق ممکن رہی، اور بعض اوقات شواہد غیر واضح رہے۔
عوام کے لیے انتباہ
سیکیورٹی ذرائع اور ماہرین اس طرح کی ویڈیوز کے بارے میں احتیاط کا مشورہ دیتے ہیں۔ ابتدائی اعترافی بیانات عدالتی عمل کا متبادل نہیں ہوتے — قانونی تقاضے، آزاد تفتیش اور شواہد کی بنیاد پر ہی سزا یا مزید کاروائی ممکن ہے۔ حکام عوام سے اپیل کریں کہ بغیر تصدیق شدہ معلومات کو سوشل میڈیا پر عام نہ کریں تاکہ غلط اطلاعات یا خفیہ آپریشنز متاثر نہ ہوں۔