اسلام آباد: وفاقی وزیر اطلاعات عطااللہ تارڑ نے اعلان کیا ہے کہ استنبول میں ترکی اور قطر کی میزبانی میں ہونے والے پاک–افغان طالبان مذاکرات چار روزہ گفتوگو کے باوجود کسی قابلِ عمل حل تک پہنچنے میں ناکام رہے۔ وزیر اطلاعات نے کہا کہ مذاکرات کے دوران افغان طالبان نمائندوں نے اصل مسئلے سے رخ موڑ لیا اور کوئی ٹھوس یقین دہانی یا عملدرآمدی منصوبہ سامنے نہیں آیا۔
عطا تارڑ نے سوشل میڈیا پیغام میں کہا کہ پاکستان نے مذاکرات کا واحد ایجنڈا واضح رکھا تھا — افغان سرزمین سے پاکستان پر ہونے والے حملوں کو روکوانا۔ ان کا مؤقف تھا کہ پاکستان نے مذاکرات میں جو شواہد پیش کیے وہ کافی اور ناقابلِ تردید تھے، مگر افغان وفد نے ذمہ داری قبول کرنے کے بجائے الزام تراشی اور موضوع بدلنے کی کوشش کی جس کی وجہ سے مذاکرات ناکام ہوئے۔
وزیر اطلاعات نے واضح کیا کہ پاکستان کی عوام کی سلامتی قومی ترجیح ہے اور حکومت دہشت گردی کے خلاف ہر ممکن اقدام کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردوں، ان کے ٹھکانوں اور سہولت کاروں کو نیست و نابود کیا جائے گا اور حکومت اس مقصد کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے گی۔ علاوہ ازیں انہوں نے بتایا کہ پاکستان نے قطر اور ترکی کی درخواست پر امن کے لیے ایک اور موقع دیا تھا مگر اس کے باوجود پیش رفت نہ ہوئی۔
بین الاقوامی تناظر میں بتایا جا رہا ہے کہ ان مذاکرات کا مقصد اکتوبر کے اوائل میں سرحدی جھڑپوں کے بعد دیرپا جنگ بندی اور ایک نفاذی میکانزم طے کرنا تھا۔ اگرچہ عارضی معاہدے (دوحہ میں طے شدہ) کے بعد عارضی خاموشی رہی، مگر باہمی اعتماد اور کارروائیوں کی شواہد بارے اختلاف نے گفتوگو کو ناکام بنادیا۔ اس پس منظر میں پاکستان کے دفاعی حلقوں نے خبردار کیا ہے کہ مذاکرات ناکامی کی صورت میں صورتحال شدت اختیار کر سکتی ہے۔