مولانا فضل الرحمن کا خطاب — ختمِ نبوت کنونشن، چناب نگر: “اپنی قوت پر بھروسہ کریں، میدان میں نکلیں”

چناب نگر: جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے چناب نگر میں منعقدہ ختمِ نبوت کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے حکومت، سیاسی جماعتوں اور دینی مدارس کے حوالے سے سخت بیانات دیے اور حاضرین کو متحرک رہنے کی ہدایت کی۔

مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ “اپنی قوت پر اعتماد کریں، میدان میں نکلیں — کوئی آپ کا بال بھی بیکا نہیں کر سکے گا”، اور مدارس، مذہبی اداروں اور عوامی قوت کو کمزور بنانے کی کوششوں پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔

انہوں نے کہا کہ حالیہ قانون سازی، خصوصاً مدارس کی رجسٹریشن اور بینک اکاؤنٹس کے معاملات، پارلیمنٹ میں کی گئی قانون سازی کے دائرہ میں آتی ہے، اور اس قانون سازی کے نتائج و مقاصد پر سوالات اٹھائے جا سکتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ اگر مدارس کا کوئی مستند ادارہ موجود ہے تو وہ وفاق المدارس العربیہ پاکستان ہے، جبکہ بعد میں بنائی گئی “ڈمی” تنظیموں کے بارے میں تنقید کی۔

خطاب میں انہوں نے کہا کہ “مدارس کا ہاتھ مروڑ کر انہیں مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ ان غیر حقیقی تنظیموں کے ساتھ رجسٹریشن کروائیں” اور اس طرح کے اقدامات کو نا منظور قرار دیا۔

مولانا فضل الرحمن نے اسٹیبلشمنٹ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ انگریز کے رعب و داب کو انہوں نے تسلیم نہ کیا اور آج کے رعب و داب کو بھی تسلیم نہیں کریں گے۔ انہوں نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ کچھ حلقے مدارس کو “دس ہزار روپے” میں خریدنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس قسم کی پیشکشوں کو شامل نافہ قرار دیا۔

قومی اور بین الاقوامی مسئلوں پر بات کرتے ہوئے انہوں نے فلسطین کی صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ امت مسلمہ مظلومیت کا شکار ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ “ستر ہزار لوگ شہید ہوئے، ڈیڑھ لاکھ بے گھر ہوئے مگر اسلامی دنیا کا ضمیر جاگ نہیں رہا” اور یہ کہنا جاری رکھتے ہوئے کہا کہ فلسطینیوں کے مسلے کا ٹھوس حل صرف فلسطینی قیادت اور حماس کی رضامندی سے ہی ممکن ہے۔

ملکی دفاع و خارجہ امور پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان کی فوج بیک وقت جنگ بھی کرتی ہے اور مذاکرات بھی — اور اس صورتحال کو تنقیدی زاویے سے دیکھا جانا چاہیے: “لڑنے والا مذاکرات نہیں کر سکتا اور مذاکرات کرنے والا جنگ نہیں کر سکتا”۔ انہوں نے سیاسی رہنماؤں پر بھی طنز کیا کہ وہ “بیانیہ بنانے” میں تو ماہر ہیں مگر عملی فیصلوں میں واضح نہیں۔

مولانا فضل الرحمن نے کڑی نکتہ چینی کے ساتھ کہا کہ اگر حکمرانوں کو سیاست سمجھ نہیں آتی تو وہ سیاسی معاملات مذہبی و عوامی قوتوں کے حوالے کر دیں تاکہ ملک میں بہتر نظم و نسق قائم ہو سکے۔ انہوں نے حکومت کی جانب سے سیاسی اور مذہبی مظاہروں پر پابندیوں کو مسترد کیا اور لبیک جیسی تحریکوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کا اعادہ کیا، مگر ساتھ ہی تشدد کے خلاف بھی خبردار کیا کہ “تحریکات میں تشدد نقصان دہ ہوتا ہے” اور منزل تک پہنچنے میں رکاوٹ بنتا ہے۔

اپنے خطاب کے اختتام پر مولانا فضل الرحمن نے حکومت کو ایک موقع دینے کی بات کی اور کہا: “ہم آپ کو سنبھل کر چلنے کا موقع دے رہے ہیں — اس سے فائدہ اٹھاؤ”۔

Related posts

خیبرپختونخوا کے انتہائی مطلوب دہشت گردوں کی فہرست جاری — 1349 دہشت گردوں کے کوائف شامل

وفاقی حکومت کا 18 نومبر کو این ایف سی ایوارڈ پر اہم اجلاس طلب

کوہستان میں 40 ارب روپے کے میگا کرپشن کیس میں بڑی پیشرفت، ملزم کے گھر سے مزید 20 کروڑ روپے برآمد