پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس: اقلیتوں کے حقوق سے متعلق بل کثرتِ رائے سے منظور، حق میں 160 اور مخالفت میں 79 ووٹ

اسلام آباد: پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اقلیتوں کے حقوق سے متعلق قومی کمیشن برائے اقلیتی حقوق 2025 کا بل کثرتِ رائے سے منظور کرلیا گیا۔ اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی زیر صدارت اجلاس میں بل کے حق میں 160 جبکہ مخالفت میں 79 ووٹ ڈالے گئے۔

وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ کا خطاب

وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے بل پیش کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے 2014 میں اقلیتوں کے لیے کمیشن کے قیام کی ہدایت دی تھی، جس کے تحت یہ قانون لایا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان اور ان کے اراکین نے بل میں ترامیم دیں جن کا خیر مقدم کیا گیا۔
اعظم نذیر تارڑ نے واضح کیا کہ قانون میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا آئینی مؤقف برقرار ہے۔

مولانا فضل الرحمان کے تحفظات

جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ:
• کوشش کی جائے کہ آئین کو متنازع نہ بنایا جائے۔
• 27 ویں ترمیم کو بغیر مشاورت پیش کیا گیا، جس طرح 18 ویں ترمیم کے بعد کئی ترامیم متنازع ہوئیں، اسی طرح یہ بھی تنقید کی زد میں آسکتی ہے۔
• 1973 کا آئین سیاسی اتفاقِ رائے سے تشکیل پایا، آج بھی یہی طرزِ عمل اپنایا جانا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ:
“بل کے آغاز میں لکھا گیا ہے کہ یہ اقوام متحدہ کا تقاضا ہے، سوال یہ ہے کہ ہم نے حلف آئینِ پاکستان کا اٹھایا ہے یا اقوام متحدہ کا؟”

مولانا فضل الرحمان نے 18 سال سے کم عمر شرعی نکاح، ٹرانسجینڈر قانون اور اسلامی نظریاتی کونسل کی تجاویز کو نظرانداز کرنے پر بھی اعتراض اٹھایا۔

حکومت نے ترامیم قبول کیں: اسحاق ڈار

نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کہا کہ یہ بل دونوں ایوانوں سے پہلے ہی پاس ہوچکا تھا، تاہم صدرِ مملکت کی جانب سے کچھ اعتراضات اٹھائے گئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان اور کامران مرتضیٰ کی پیش کردہ ترامیم حکومت نے قبول کرلی ہیں۔

اسحاق ڈار کا کہنا تھا:
“نبی کریم ﷺ پر ہماری جان بھی قربان ہے، حکومتیں کسی کی ذاتی ملکیت نہیں ہوتیں، یہ آنی جانی چیزیں ہیں۔ قیدی نمبر 804 کے لیے جو کرنا ہے کریں مگر اہم قومی معاملات پر سیاست نہ کی جائے۔”

بل کی منظوری

ایوان نے تفصیلی بحث کے بعد قومی کمیشن برائے اقلیتی حقوق 2025 کے قیام کا بل منظور کرلیا، جس کا مقصد ملک میں اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ، ان کی شکایات کا ازالہ اور موثر پالیسی سازی ہے۔

یہ قانون اب متعلقہ آئینی عمل سے گزرنے کے بعد نافذ العمل ہوگا.

Related posts

عمران خان کی بہنوں نے ملاقات کی اجازت نہ دینے پر اڈیالہ جیل کے قریب دھرنا دے دیا

وفاقی وزیر عبدالعلیم خان کا ملک میں نئے صوبوں کے قیام کا مطالبہ—ورکرز کنونشن میں خطاب

آئی ایم ایف کا اجلاس آج، پاکستان کے لیے 1 ارب 20 کروڑ ڈالر کی نئی قسط پر غور