پشاور میں 2022 کے دوران تین کمسن بچیوں کے ساتھ پیش آنے والے اندوہناک ریپ اور قتل کے واقعات میں ملوث درندہ صفت مجرم سہیل عرف حضرت علی کو عدالت نے پانچ بار سزائے موت اور عمر قید کی سزا سنائی ہے۔ چائلڈ پروٹیکشن کورٹ کے اس فیصلے میں خیبرپختونخواہ پولیس کی بہترین اور سائنسی بنیادوں پر کی گئی تفتیش نے مرکزی کردار ادا کیا۔
یہ دل دہلا دینے والے واقعات پشاور کے پوش علاقے کینٹ میں تین مختلف تھانوں کی حدود میں ہر اتوار کے روز یکے بعد دیگرے پیش آئے۔ 3، 10 اور 17 جولائی 2022 کو تین ننھی بچیوں کو زیادتی کے بعد بے دردی سے قتل کر دیا گیا، جس کے بعد شہر میں خوف و ہراس کی فضا قائم ہو گئی۔
اس پیچیدہ اور حساس کیس کی تفتیش کے لیے اس وقت کے ایس ایس پی آپریشنز کاشف آفتاب عباسی اور ایس ایس پی انویسٹیگیشن شہزادہ کوکب فاروق نے ایک مشترکہ ٹیم بنائی جس میں پولیس، فارنزک ماہرین، جیو فینسنگ، کال ڈیٹا ماہرین اور سائنسی انویسٹی گیٹرز شامل تھے۔ ٹیم نے 3000 منٹ کی کیمرہ ریکارڈنگز، ڈیجیٹل شواہد، ڈی این اے میچنگ اور کال ڈیٹا کی باریک بینی سے چھان بین کی۔
مشترکہ کاوشوں کے نتیجے میں پولیس نے سہیل عرف حضرت علی کو گرفتار کیا، جس کے جسمانی خد و خال اور حرکات و سکنات مجرم سے مشابہت رکھتے تھے۔ ڈی این اے رپورٹس نے واضح کر دیا کہ وہی ان درندگی کے واقعات کا مجرم ہے۔ عدالت میں پیشی کے دوران ملزم نے اپنے جرم کا اعتراف بھی کیا، جس کے بعد ناقابلِ تردید شواہد کی بنیاد پر عدالت نے اس کو تین مقدمات میں پانچ بار سزائے موت اور عمر قید کی سزا سنائی۔
اس کیس میں ڈپٹی پبلک پراسیکیوٹر عارف بلال نے استغاثہ کی نمائندگی کی۔ انصاف کی اس فراہمی پر انسپکٹر جنرل پولیس خیبرپختونخواہ ذوالفقار حمید نے تفتیشی ٹیم کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ مظلوموں کو انصاف دلوانے میں پولیس کی تفتیش کا کلیدی کردار ہوتا ہے اور جب تفتیش سائنسی بنیادوں پر ہو، تو مجرم بچ نہیں سکتا۔
آئی جی خیبرپختونخواہ نے ٹیم کے تمام افسران و اہلکاروں کے لیے توصیفی اسناد اور نقد انعامات کا بھی اعلان کیا اور کہا کہ یہ کیس خیبرپختونخواہ پولیس کی تفتیشی مہارت کا ایک ناقابلِ تردید ثبوت ہے۔