اسرائیل کی سکیورٹی کابینہ نے مقبوضہ مغربی کنارے میں 19 نئی یہودی بستیوں کی تعمیر کی منظوری دے دی ہے، جس کے بعد خطے میں کشیدگی مزید بڑھنے کے خدشات پیدا ہو گئے ہیں۔
عرب میڈیا کے مطابق اس تازہ منظوری کے بعد گزشتہ تین برسوں کے دوران مقبوضہ مغربی کنارے میں تسلیم کی جانے والی یہودی بستیوں کی مجموعی تعداد 69 ہو گئی ہے۔ رپورٹس کے مطابق یہ فیصلہ اسرائیل کی توسیع پسندانہ پالیسیوں کا تسلسل ہے۔
اسرائیل کے انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے وزیر خزانہ بیزلیل اسموٹریچ نے کہا ہے کہ یہ منصوبہ وزیر دفاع اسرائیل کاٹز کے ساتھ مل کر پیش کیا گیا، جس کا بنیادی مقصد فلسطینی ریاست کے قیام کو روکنا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غزہ میں اکتوبر 2023 سے جاری جنگ کے بعد مغربی کنارے میں تشدد کے واقعات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، جس کے باعث خدشات بڑھ گئے ہیں کہ نئی آبادکاریاں اسرائیلی قبضے کو مزید مضبوط کریں گی اور دو ریاستی حل کی راہ میں بڑی رکاوٹ بنیں گی۔
اقوام متحدہ اور عالمی برادری پہلے ہی مقبوضہ مغربی کنارے میں اسرائیلی آبادکاریوں کو بین الاقوامی قانون کے تحت غیر قانونی قرار دے چکی ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے اسرائیل کی مسلسل آبادکاری پالیسی پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ یہ اقدامات کشیدگی میں اضافہ کر رہے ہیں، فلسطینیوں کی زمین تک رسائی محدود ہو رہی ہے اور ایک خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام کو سنگین خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔
عالمی مبصرین کے مطابق اسرائیل کے حالیہ فیصلے سے مشرقِ وسطیٰ میں امن عمل کو مزید دھچکا لگنے کا امکان ہے۔