لاہور: ایک تازہ تجزیے کے مطابق واضح ہوا ہے کہ صارفین آج بھی انتہائی آسان اور آسانی سے اندازہ لگائے جا سکنے والے پاس ورڈز استعمال کر رہے ہیں۔ پیک اے آئی نامی کمپنی نے پچھلے چھ برسوں میں ہیک ہونے والے تقریباً 10 کروڑ پاس ورڈز کے ڈیٹا کا مطالعہ کرتے ہوئے سب سے زیادہ استعمال ہونے والے کمزور پاس ورڈز کی فہرست جاری کی ہے، جس میں “123456” پہلے نمبر پر ہے۔
رپورٹ کے اہم نکات کے مطابق:
• ہیک ہونے والے 66 لاکھ سے زائد پاس ورڈز میں صارفین نے 123456 کا استعمال کیا تھا۔
• فہرست میں 123456789 دوسرے اور 111111 تیسرے نمبر پر رہے۔
• اس کے بعد password، qwerty، abc123، 1234567، password1، 12345678، 123123 وغیرہ شامل ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ چاہے آپ فیس آئی ڈی یا دوسرے بایومیٹرک طریقے استعمال کریں، آن لائن خدمات — بینکنگ، شاپنگ یا سوشل میڈیا — کے بیشتر اکاؤنٹس کی حفاظت کے لیے آخرکار پاس ورڈ ہی ایک اہم لائن آف ڈیفنس رہتا ہے۔ اسی لیے کمزور پاس ورڈز سائبر کرمنلز کا ہدف بن جاتے ہیں اور ڈیجیٹل سیکیورٹی میں دراڑ پڑ جاتی ہے۔
پاس ورڈ سیکیورٹی کے ماہرین کی اہم رہنمائی:
• ہر اکاؤنٹ کے لیے الگ اور منفرد پاس ورڈ استعمال کریں۔
• پاس ورڈ کم از کم 12 حروف پر مشتمل ہو، اور بڑے حروف، چھوٹے حروف، نمبرز اور اسپیشل کریکٹر (مثلاً @, #, $, %) کا امتزاج رکھے۔
• اپنی ذاتی معلومات (جیسے نام، تاریخِ پیدائش، مشاغل) پر مبنی پاس ورڈ استعمال نہ کریں۔
• پاس ورڈ مینیجرز (Password Managers) استعمال کریں تاکہ آپ مشکل اور منفرد پاس ورڈز آسانی سے سنبھال سکیں۔
• دو مرحلوں کی توثیق (2FA) کو فعال کریں—ایسا ہر جگہ کریں جہاں یہ دستیاب ہو۔
رپورٹ میں یہ بھی نوٹ کیا گیا کہ ٹیکنالوجی کمپنیاں پاس ورڈ کی جگہ بلاشبہ نئے متبادل (مثلاً پاس فریز، فنگر پرنٹ، فیس ریکگنیشن اور پاسکیز) پر کام کر رہی ہیں، مگر مکمل تبدیلی کے لیے وقت درکار ہے۔ اس دوران صارفین کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ذاتی اور مالی معلومات کی حفاظت کے لیے مضبوط حفاظتی اقدامات اپنائیں۔
آخر میں ماہرین کا انتباہ: سائبر کرمنلز عام انسانی رویوں اور سہل پسندی کو ہمیشہ کا فائدہ اٹھاتے ہیں — اس لیے آن لائن حفاظت کو سنجیدگی سے لیں اور آج ہی اپنے اکاؤنٹس کے کمزور پاس ورڈز تبدیل کریں