پشاور: وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا سہیل آفریدی کی جانب سے صوبے میں اچھی حکمرانی اور میرٹ پر تقرریوں و تبادلوں کے دعوؤں کے باوجود عملی طور پر انتظامی نظام میں سنگین تضادات سامنے آ گئے ہیں، جس سے صوبائی بیوروکریسی میں شدید بے چینی پائی جاتی ہے۔
خیبر پختونخوا میں حالیہ انتظامی ردوبدل نے پوسٹنگ اور ٹرانسفر کے نظام میں موجود بنیادی خامیوں کو بے نقاب کر دیا ہے۔ سرکاری ذرائع کے مطابق متعدد سینئر افسران کو بطور او ایس ڈی ایک طرف بٹھا دیا گیا ہے، جبکہ نسبتاً جونیئر افسران کو اہم اور اعلیٰ سطح کے عہدوں پر تعینات کر دیا گیا، جس سے میرٹ، گورننس اور ترجیحات پر سنجیدہ سوالات اٹھ رہے ہیں۔
وزیراعلیٰ سہیل آفریدی نے جنگ سے گفتگو کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ تمام تقرریاں اور تبادلے سختی سے میرٹ کی بنیاد پر کیے گئے ہیں۔ ان کے مطابق یہ فیصلے طے شدہ قواعد و ضوابط اور افسران کی کارکردگی کو مدنظر رکھ کر کیے گئے ہیں، اور اس پورے عمل میں نہ کسی سیاسی دباؤ کو شامل کیا گیا ہے اور نہ ہی کسی ذاتی پسند یا ناپسند کو۔
تاہم سرکاری ریکارڈ کے مطابق بی پی ایس 21 اور 20 کے متعدد سینئر افسران، جن میں محمود الحسن (پی اے ایس)، ارشد خان (پی سی ایس ایس جی)، ذکاء اللہ خٹک (پی سی ایس ای جی)، عامر آفاق (پی ایم ایس)، محمد علی شاہ (پی سی ایس ای جی)، یوسف رحیم، ثاقب رضا، محمد طاہر اورکزئی اور عنایت اللہ مہمند شامل ہیں، متعدد خالی انتظامی اسامیوں کے باوجود او ایس ڈی کے طور پر بغیر کسی ذمہ داری کے تعیناتی کے منتظر ہیں۔
اس کے برعکس کئی بی پی ایس 19 افسران کو ایسے عہدوں پر تعینات کیا گیا ہے جو روایتی طور پر بی پی ایس 20 اور 21 کے افسران کے لیے مختص سمجھے جاتے ہیں۔ ان میں عابد وزیر (پاس) بی پی ایس 19 کو سیکرٹری صنعت، تجارت و ٹیکنیکل ایجوکیشن، جبکہ ظفر الاسلام (پاس) بی پی ایس 19 کو سول سرونٹس ایکٹ کے سیکشن 10 کے تحت سیکرٹری لوکل گورنمنٹ، الیکشنز و دیہی ترقی تعینات کیا جانا شامل ہے۔
دیگر نمایاں تقرریوں میں خالد بی پی ایس 19 کو کمشنر بنوں اور کیپٹن (ر) میاں عادل اقبال بی پی ایس 19 کو سیکرٹری لیبر مقرر کرنا بھی شامل ہے۔
انتظامی ماہرین اور سرکاری حلقوں کا کہنا ہے کہ اس طرح کے فیصلے نہ صرف سینئر افسران کے تجربے کو نظرانداز کرنے کے مترادف ہیں بلکہ صوبے میں گورننس کے دعوؤں پر بھی سوالیہ نشان ہیں۔ ان کے مطابق اگر تقرری و تبادلہ کا نظام شفاف اور میرٹ پر مبنی نہ ہو تو اس کے اثرات براہ راست انتظامی کارکردگی اور عوامی خدمات پر پڑتے ہیں.