قاہرہ/واشنگٹن/تل ابیب: غزہ میں جنگ بندی کے امکانات کا فیصلہ آج مصر کے شہر شرم الشیخ میں ہونے والی بالواسطہ مذاکراتی نشست سے وابستہ سمجھا جا رہا ہے، جہاں حماس، اسرائیل اور ثالث ممالک کے نمائندے امن معاہدے، یرغمالیوں کی رہائی اور اسرائیلی افواج کے انخلا کے نکات پر بات چیت کر رہے ہیں۔
کون کون پہنچا اور مذاکرات کا ایجنڈا کیا ہے؟
امریکہ کی طرف سے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خصوصی نمائندے جیراڈ کشنر (Jared Kushner) اور خصوصی ایلچی اسٹیو وِٹکوف (Steve Witkoff) مذاکرات کے سلسلے میں حصہ لے رہے ہیں جب کہ حماس کی نمائندگی خلیل الحیہ کی قیادت میں ہورہی ہے۔ اسرائیلی وفد کی بھی مصر روانگی کی تصدیق ہو چکی ہے۔ مذاکرات کا مرکزی محور گرفتاروں کی رہائی، ابتدائی انخلا، اور جنگ بندی کے مرحلہ وار نفاذ ہیں۔
مذاکرات کے ممکنہ نکات (پائپ لائن — کیا طے ہو سکتا ہے)
• پہلا مرحلہ: قیدیوں/یرغمالیوں کا تبادلہ (رپورٹس کے مطابق ابتدائی طور پر 48 یرغمالیوں کی رہائی اور بعض فلسطینی قیدیوں کی رہائی شامل ہو سکتی ہے)۔
• دوسرا مرحلہ: اسرائیلی افواج کا غزہ سے کچھ علاقوں میں انخلا اور فضائی کارروائیوں میں واضح کمی۔
• تیسرا مرحلہ (زیادہ پیچیدہ): طویل المدت انتظامی اور سیکیورٹی حل — حماس کے ہتھیار ڈالنے یا بندوقیں غیر مسلح کرنے، بین الاقوامی نگرانی، اور غزہ کی عبوری انتظامیہ کے ممکنہ ماڈلز۔ یہ سبھی نکات سب کے اتفاقِ رائے کے بغیر مشکل ہیں۔
امریکہ اور ٹرمپ کا موقف
صدر ٹرمپ نے مذاکرات میں تیزی کا مطالبہ کیا ہے اور اس امید کا اظہار کیا ہے کہ پہلا مرحلہ جلد مکمل ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا ہے کہ جب حماس معاہدے کی تصدیق کرے گی تو جنگ بندی فوراً نافذ ہوگی، اور واشنگٹن اس عمل کو آگے بڑھانے کے لیے ایک فعال کردار ادا کر رہا ہے۔ تاہم ٹرمپ نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ اگر حماس معاہدے کو طوالت دے تو “تمام آپشنز” زیرِ غور آئیں گے۔
مذاکرات کی راہ میں بڑے چیلنجز کیا ہیں؟
1. حماس کا ہتھیار ڈالنا یا غیر مسلح ہونا — یہ سیاسی و عملی دونوں اعتبار سے پیچیدہ ترین شرط ہے؛ حماس کے بعض رہنما اس پر مختلف رویّے رکھتے ہیں اور بین الاقوامی نگرانی کے سلسلے میں اعتماد کا بڑا خلاء ہے۔
2. اسرائیل کی سیکیورٹی تشویشات — اسرائیل چاہے گا کہ مستقبل میں کوئی دوبارہ حملہ ممکن نہ ہو؛ اسی خدشے کے تحت وہ فورسز کے مکمل انخلا میں ہچکچاہٹ دکھا سکتا ہے۔
3. فوری تشدید یا متواتر حملے — مذاکرات کے دوران وقفہ یا تنازع کے دوران بار بار ہونے والی جھڑپیں معاہدے کو متاثر کر سکتی ہیں۔
مستقبل کے تین ممکنہ نقشے (مختصر انداز میں)
• امید کا منظر (بہترین نتیجہ): بات چیت کامیابی سے گزرتی ہے — ابتدائی قیدی تبادلہ ہوتا ہے، فضائی کارروائی میں کمی آتی ہے، اور مرحلہ وار انخلا کے راستے کھلتے ہیں؛ پھر عبوری انتظامی نظام اور بین الاقوامی نگرانی کا آغاز ہوتا ہے۔
• جزوی کامیابی (ممکنہ نتیجہ): قیدیوں کا محدود تبادلہ اور وقتی جنگ بندی مگر سکیورٹی نکات پر کھلی بحث جاری رہتی ہے؛ طویل المدت حل کے لیے مزید مذاکرات درکار ہوں گے۔
• ناکامی/پیچیدگی (بدترین منظر): مفاہمت نہ ہو پائے، جنگ بندی جلد ٹوٹ جائے اور ہلاکتیں اور تباہی جاری رہیں — اس سے بین الاقوامی دباؤ بڑھ سکتا ہے مگر مقامی سطح پر صورتحال مزید بگڑ سکتی ہے۔
کن چیزوں پر غور رکھنا چاہیے — کُیا دیکھنا ہے؟
1. یرغمالیوں کی فہرست اور ابتدائی رہائی: کون سے افراد اور کتنے؟ (یہ مذاکرات کی شفافیت کی کلید ہوں گے)۔
2. اسرائیل کی افواج کی حرکت: اسرائیل کتنے علاقوں سے واپسی کی منظوری دیتا ہے؟ یہ طے کرے گا کہ جنگ بندی کتنی پائیدار ہو سکتی ہے۔
3. بین الاقوامی نگرانی اور ثالثی کا ڈھانچہ: کونسی ریاستیں یا ادارے نگرانی کریں گے — مصر، قطر، امریکہ یا کوئی بین الاقوامی مشن؟
4. وقت کی حدیں (ڈیڈ لائنز): مذاکرات میں مقررہ وقتی حد کی پابندی اور شفاف میکانزم — ٹرمپ کی جلدی کی اپیل اسی پس منظر میں ہے۔
خلاصہ — موقع بھی ہے، خدشات بھی
شرم الشیخ میں مذاکرات ایک امید افزا قدم ہیں اور بین الاقوامی دباؤ، ثالثی اور اشاریے ظاہر کر رہے ہیں کہ ابھی ممکنہ طور پر سب سے قریب ترین نقطہ پر پہنچا جا رہا ہے جہاں قیدیوں کی رہائی اور ابتدائی جنگ بندی ممکن ہو سکتی ہے۔ مگر ہتھیار ڈالنے، عبوری انتظام اور طویل المدت سیکیورٹی بندوبست جیسے مشکل موضوعات ابھی بھی نازک ہیں — اس لیے فیصلی نتیجہ مذاکرات کی سطح، فریقین کی ہمت اور بین الاقوامی دباؤ پر منحصر ہوگا۔