ویسے تو کہا جاتا ہے کہ بہت زیادہ میٹھا کھانا ذیابیطس جیسے مرض کا خطرہ بڑھاتا ہے مگر آلو کے چپس کھانے کا شوق بھی اس جان لیوا دائمی بیماری کا شکار بنا سکتا ہے۔
یہ انتباہ امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق میں سامنے آیا۔
ہارورڈ یونیورسٹی کی تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ فرنچ فرائیز کھانے کا شوق ذیابیطس ٹائپ 2 کا شکار بنا سکتا ہے البتہ آلوؤں کو بھون کر، ابال کر یا پیس کر کھانے سے صحت کو فائدہ ہوتا ہے۔
عالمی سطح پر آلو چاول اور گندم کے بعد کھائی جانے والی تیسری بڑی غذائی فصل ہے۔
واضح رہے کہ ذیابیطس ایسا دائمی اور سنگین مرض ہے جس کا سامنا ہر 10 میں سے ایک فرد کو ہوتا ہے اور دنیا بھر اس کے کیسز کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔
زیادہ تر افراد کو ذیابیطس ٹائپ 2 کا سامنا ہوتا ہے جو اس مرض کی سب سے عام قسم ہے اور 90 سے 95 فیصد کیسز میں اس کی تشخیص ہوتی ہے، اس سے ہٹ کر ذیابیطس ٹائپ 1 اور حاملہ خواتین میں ذیابیطس اس مرض کی دیگر اہم اقسام ہیں۔
درحقیقت موجودہ عہد میں جوان افراد میں اس مرض کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
اس نئی تحقیق میں 2 لاکھ سے زائد افراد کے ڈیٹا کی جانچ پڑتال کی گئی جن سے 1984 سے 2021 کے دوران ہر 4 سال میں ایک بار غذائی سوالنامے بھروائے گئے تھے۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ آلو بذات خود تو صحت کے لیے نقصان دہ نہیں مگر ان کو تل کر اکثر کھانے سے ذیابیطس ٹائپ 2 کی تشخیص کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ موجودہ عہد میں بیشتر جوان افراد فرنچ فرائیز کھانا پسند کرتے ہیں یا وہ اکثر فاسٹ فوڈز کا حصہ ہوتے ہیں۔
تحقیق کے مطابق اگر کوئی فرد ہفتے میں 3 بار فرنچ فرائیز کھاتا ہے تو ذیابیطس سے متاثر ہونے کا خطرہ 20 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔
اگر ہفتے میں 5 بار آلوؤں کو اس شکل میں کھایا جاتا ہے تو ذیابیطس کا خطرہ 27 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔
محققین نے بتایا کہ آلوؤں میں نشاستہ کی مقدار کافی زیادہ ہوتی ہے اور انہیں تیل میں تلنے سے صحت کے لیے مفید اجزا گھٹ جاتے ہیں جبکہ صحت کے لیے خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ اگر آلو کے چپس کی بجائے سالم اناج کو دی جائے تو ذیابیطس سے متاثر ہونے کا خطرہ 8 سے 19 فیصد تک کم ہو جاتا ہے۔
محققین کے مطابق فرنچ فرائیز میں تیل اور نمک کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے اور زیادہ چکنائی، نمک اور کیلوریز ممکنہ طور پر جسمانی وزن میں اضافے کا باعث بنتے ہیں جبکہ ذیابیطس کا خطرہ بڑھتا ہے۔
انہوں نے اعتراف کیا کہ تحقیق کسی حد تک محدود ہے کیونکہ نتائج میں چپس کھانے اور ذیابیطس ٹائپ 2 کے خطرے کی وجہ کو ثابت نہیں کیا گیا۔
اس تحقیق کے نتائج برٹش میڈیکل جرنل میں شائع ہوئے۔
خیال رہے کہ ذیابیطس کی تمام اقسام میں ایک چیز مشترک ہے اور وہ خون میں شکر کی مقدار بڑھ جانا جسے ہائی بلڈ شوگر کہا جاتا ہے۔
ہمارا جسم بلڈ شوگر کو کنٹرول کرنے کے لیے انسولین تیار کرتا ہے۔
لبلبے میں بننے والا یہ ہارمون خون میں موجود گلوکوز کو خلیات کے اندر داخل ہونے میں مدد فراہم کرتا ہے۔
یعنی جب ہم کچھ کھاتے ہیں تو وہ غذا گلوکوز میں تبدیل ہوتی ہے جس کے ردعمل میں لبلبے سے انسولین ہارمون کا اخراج ہوتا ہے جو خلیات کے دروازے کھول کر گلوکوز کو توانائی میں بدلتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ غذا کا انتخاب ذیابیطس سے تحفظ یا اس سے متاثر ہونے کے حوالے سے اہم کردار ادا کرتا ہے۔