اسلام آباد:پاکستان نے اقوامِ متحدہ میں سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پیش کردہ غزہ امن منصوبے کو امن کے قیام کے لیے ایک نادر موقع قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس مشاورتی عمل میں فعال طور پر حصہ لے گا اور خطے میں مستقل سیاسی حل کے لیے تعاون کرے گا۔
پاکستان کے مستقل مندوب عاصم افتخار احمد نے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں اپنے بیان میں کہا کہ اس امن کوشش میں او آئی سی کے آٹھ ارکان اور متعدد عرب ممالک کا تعاون شامل ہے اور اسلام آباد اس مشاورتی عمل کو آگے بڑھانے میں باقاعدہ طور پر شریک رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہر ممکنہ لائحہ عمل آخرکار مکمل فلسطینی ملکیت اور شرکت پر مبنی ہوگا۔
عاصم افتخار نے غزہ کی سنگین انسانی صورتِ حال کی تفصیل دیتے ہوئے کہا کہ اب تک تقریباً 66 ہزار فلسطینی جاں بحق ہوچکے ہیں جن میں اکثریت خواتین اور بچے ہیں، اور غزہ پر جاری بمباری، دانستہ بھوک اور شہری ڈھانچوں کی تباہی نے بڑے پیمانے پر بے گھر ہونے اور قحط کا خطرہ پیدا کر دیا ہے۔ انہوں نے فوراً اور غیر مشروط جنگ بندی، ناکہ بندی کا خاتمہ، انسانی امداد کی بلا روک ٹوک رسائی، اور یرغمالیوں و قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ دہرایا۔
پاکستانی مندوب نے خبردار کیا کہ اسرائیل کا E-1 بستی منصوبہ دو ریاستی حل پر براہِ راست حملہ ہے اور مشرقی یروشلم کو فلسطین سے کاٹنے اور مغربی کنارے کی سرحدی و جغرافیائی وحدت کو تباہ کرنے کی کوشش ہے، جو بین الاقوامی قانون اور قرارداد 2334 کی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر سلامتی کونسل اپنی قراردادوں کے نفاذ کا پابند نہیں رہتی تو اس کی ساکھ خطرے میں پڑ جائے گی۔
عاصم افتخار نے مثبت پیش رفت کے طور پر فرانس اور سعودی عرب کی میزبانی میں ہونے والی دو ریاستی حل کانفرنسوں اور متعدد ممالک کی جانب سے فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے کے اقدامات کا ذکر کیا اور کہا کہ یہ ٹھوس سیاسی نتائج میں بدلنے چاہئیں۔ انہوں نے زور دیا کہ دو ریاستی حل کو بچانے کے لیے قرارداد 2334 کے مکمل نفاذ کے لیے عملی، وقت معین کردہ اقدامات اٹھائے جائیں۔
مندوبِ پاکستان نے کہا کہ ایک بااعتماد اور ناقابلِ واپسی سیاسی عمل کو فوراً شروع کیا جائے تاکہ 1967ء سے پہلے کی سرحدوں کی بنیاد پر ایک خودمختار فلسطینی ریاست قائم ہو، جس کا دارالحکومت القدس الشریف ہو۔ انہوں نے اقوامِ متحدہ اور بین الاقوامی برادری پر زور دیا کہ وہ بیانات تک محدود نہ رہیں بلکہ عملی اقدامات کے ذریعے اس انسانی المیے کو روکیں۔