اسلام آباد، 3 اکتوبر 2025 — نائبِ وزیراعظم و وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار نے قومی اسمبلی میں کہا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے جاری کیے گئے غزہ امن معاہدے کے 20 نکات وہی نہیں جو مسلم ممالک کے مشترکہ مسودے میں شامل تھے، مسودے میں بعد ازاں تبدیلیاں کی گئیں اور جو 20 پوائنٹس پبلک کیے گئے وہ “من و عن” ان کے نہیں ہیں۔
اسحاق ڈار نے بیان کیا کہ وزیراعظم کا وہ ٹویٹ صدر ٹرمپ کے اس ٹویٹ کے جواب میں کیا گیا تھا اور اس میں کوئی غیبی الہام شامل نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ اگر حکومت چاہتی تو معاملے پر چپ رہنا زیادہ آسان ہوتا، مگر ہم نے فعال کردار ادا کیا۔
وزیرِ خارجہ نے قومی اسمبلی کو بتایا کہ غزہ میں لوگ بھوک و مصائب کا شکار ہیں اور اقوامِ متحدہ، یورپی یونین اور دیگر بین الاقوامی ادارے امن قائم کرنے میں ناکام دکھائی دیے ہیں۔ ان کا مؤقف رہا کہ غزہ میں مکمل جنگ بندی اور تعمیرِ نو ضروری ہے اور یہ مسئلہ صرف پاکستان کا ذاتی مسئلہ نہیں بلکہ اسلامی ممالک کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسئلۂ فلسطین پر سیاست کی گنجائش نہیں اور پاکستان کی پالیسی قائدِ اعظم کے طرزِ فکر کے مطابق ہے۔
اسحاق ڈار نے یہ بھی بتایا کہ پاکستان کے بعض نمائندوں اور رکنِ عمل نے عالمی امدادی فلوٹیلا میں شمولیت اختیار کی تھی اور چند پاکستانی فلوٹیلا میں شامل دیگر افراد کے ساتھ اسرائیلی حکام نے تحویل میں لیے گئے ہیں؛ ان کی رہائی اور بحفاظت واپسی کے لیے کوششیں کی جا رہی ہیں اور ثالث ملک کے ذریعے رابطے کیے گئے ہیں۔
نائبِ وزیراعظم نے پاکستان کی خارجہ پالیسی اور موقف کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ جو بھی بین الاقوامی اقدامات کیے جائیں، پاکستان اپنے اصولی موقف اور فلسطینی عوام کے حقِ خودارادیت کے ساتھ کھڑا رہے گا۔