تحریر: شکیلہ فاطمہ
اکثر ہم جب سرکاری دفاتر کا رخ کرتے ہیں تو دل میں ایک اندیشہ سا سوار ہوتا ہے کہ نجانے کتنی فائلیں ٹھنڈی پڑی ہوں گی، کتنی بار چکر لگانے پڑیں گے اور کیا کوئی سنے گا بھی یا نہیں۔ لیکن جب ایسے وقت میں کوئی شخصیت فرشتہ صفت بن کر سامنے آئے، تو نہ صرف دل سے دعائیں نکلتی ہیں بلکہ امید کی ایک نئی کرن جاگتی ہے۔
چند روز قبل میرا سامنا ایک ایسی ہی شخصیت سے ہوا — ایک ایسے انسان سے جنہیں صرف ایک سرکاری افسر کہنا زیادتی ہوگی، وہ خدمت، خلوص، دیانت اور انسانیت کا وہ نمونہ ہیں جسے دیکھ کر دل دعا دیتا ہے کہ کاش ہر ادارے میں علی عباس جیسے لوگ ہوں۔

میں نے اپنے پچھلے کالم میں اس عظیم شخصیت کا نام ذکر نہیں کیا تھا، مگر جیسے ہی وہ کالم شائع ہوا تو مجھے صحافیوں، نرسوں، بیوروکریسی سے لے کر اعلیٰ حکام تک کی جانب سے کالز آنے لگیں۔ سب یہی جاننا چاہتے تھے کہ آخر وہ فرض شناس افسر کون ہیں جن کا ذکر اتنے اچھے انداز میں کیا گیا ہے۔ حتیٰ کہ پنجاب کے وزیر صحت نے بھی مجھ سے ان کا نام دریافت کیا۔ یہی وجہ بنی کہ مجھے یہ کالم دوبارہ لکھنا پڑا تاکہ سچ کو سچ کہا جا سکے اور وہ شخصیت جو واقعی تعریف کے قابل ہے، ان کی پہچان سب تک پہنچے۔
جی ہاں، میں بات کر رہی ہوں پاکستان نرسنگ کونسل کے اسٹنٹ ڈائریکٹر علی عباس صاحب کی، جو اس وقت نہ صرف اپنے فرائض ایمانداری سے سرانجام دے رہے ہیں بلکہ ہر آنے والے کے لیے ایک مثال بھی بن چکے ہیں۔
ایک نرسنگ طالبہ کا کیس کئی مہینوں سے رکا ہوا تھا، کوئی جواب نہیں آ رہا تھا اور نہ ہی کسی طرف سے پیش رفت ہو رہی تھی۔ جب وہ بچی علی عباس صاحب کے پاس پہنچی، تو نہ کوئی تعارف دیا، نہ کسی سفارش کا سہارا لیا — صرف اپنی مشکل بیان کی۔ علی عباس صاحب نے انتہائی تحمل، توجہ اور خوش دلی سے اس کا مسئلہ سنا اور بیٹھے بیٹھے دیگر ہزاروں فائلوں پر دستخط کرنے کے ساتھ ساتھ اس کا کام بھی اس قدر سرعت سے مکمل کیا کہ دیکھنے والے حیران رہ گئے۔ ان کی رفتار، ذمہ داری کا احساس اور خلوصِ نیت ان کی شخصیت کا اصل جوہر ہے۔
علی عباس صاحب کا طرزِ عمل صرف مثالی نہیں بلکہ قابلِ تقلید بھی ہے۔ وہ نہ صرف میرٹ کے پابند ہیں بلکہ ہر فائل، ہر کام اور ہر درخواست کو ایک ذمہ داری، بلکہ عبادت سمجھ کر سرانجام دیتے ہیں۔ ان کے دل میں انسانیت کے لیے جو جذبہ ہے، وہ ان کے ہر عمل سے جھلکتا ہے۔
سفارش یا تعلقات ان کے نزدیک کوئی معنی نہیں رکھتے — ان کے لیے اہمیت رکھتی ہے صرف سچائی، اصل مسئلہ، اور میرٹ۔ وہ جس انداز سے نرم خوئی اور خلوص کے ساتھ مسائل کو سنتے ہیں اور فوری حل نکالتے ہیں، وہ واقعی ایک "فرشتے نما انسان” کا عکس ہے۔
ایک صحافی ہونے کے ناطے میرا واسطہ ڈاکٹروں، نرسوں، بیوروکریسی اور ہر طبقے سے رہتا ہے۔ اس لیے جب اتنی زیادہ کالز آئیں کہ جس افسر کی بات کی گئی ہے وہ علی عباس ہیں — تو مجھے محسوس ہوا کہ ان کا ذکر نام کے ساتھ ہونا چاہیے تاکہ ایسے افراد کو وہ پہچان ملے جس کے وہ حق دار ہیں۔
ہمارے ہاں ایک عام تاثر ہے کہ بغیر سفارش کے کوئی کام نہیں ہوتا۔ علی عباس صاحب نے اس تاثر کو یکسر بدل کر رکھ دیا۔ ان کے عمل سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اگر نیت صاف ہو، فرض شناسی ہو، اور عوام کی خدمت کا جذبہ ہو — تو کچھ بھی ناممکن نہیں۔
بدقسمتی سے ہمارے ہاں اکثر سفارشی نظام، اقربا پروری اور چاپلوسی کو ترجیح دی جاتی ہے۔ وزراء اپنی پسند اور تعلق داریوں کی بنیاد پر بھرتیاں کرتے ہیں، جبکہ علی عباس جیسے افسران گمنامی میں بھی عظمت کی مثال بنے رہتے ہیں۔ سیاستدانوں کو چاہیے کہ وہ ان جیسے افراد کو صرف پروموٹ ہی نہ کریں بلکہ ان کے کام کو ملک بھر میں ایک مثال کے طور پر پیش کریں۔
وزیر صحت، مصطفیٰ کمال، جو خود ایک تعلیم یافتہ اور سنجیدہ شخصیت ہیں، ان سے دس سالہ تعلق کے ناطے میں جانتی ہوں کہ وہ ایسے افراد کی قدر کرتے ہیں۔ لیکن یہ قدر صرف ایک وزیر تک محدود نہیں ہونی چاہیے۔ پورے نظام کو بدلنے کے لیے ہر سیاستدان، ہر بیوروکریٹ، ہر ادارے کو یہ سمجھنا ہوگا کہ اصل طاقت انسان دوستی، میرٹ اور خلوص میں ہے۔
یہ نظام جس میں ہم سانس لے رہے ہیں، صرف پالیسیاں، فائلیں یا فنڈز سے نہیں چلتا — بلکہ اس کی بنیاد ایسے افراد پر ہے جو اپنے ذاتی مفاد سے بلند ہو کر قوم کی خدمت کو فرض سمجھتے ہیں۔ ہم نے کئی بار دیکھا کہ کتنے منصوبے، بل، اسکیمیں اور ادارے بنے، لیکن اگر وہاں اہل، دیانتدار اور جذبہ رکھنے والے افراد موجود نہ ہوں تو سب خاک ہو جاتا ہے۔ اسی لیے نظام کی تبدیلی صرف قانون سازی سے نہیں بلکہ سوچ کی تبدیلی سے آتی ہے۔
علی عباس جیسے لوگ نظام کو محض چلانے والے نہیں بلکہ نکھارنے والے ہوتے ہیں۔ وہ بیوروکریسی کو روبوٹک طریقے سے نہیں بلکہ انسانی جذبے کے ساتھ چلاتے ہیں۔ ایک طرف فائل پر نوٹ لکھتے ہیں اور دوسری طرف کسی ماں کی بے بسی، کسی بیٹی کی التجا یا کسی بزرگ کی دعائیں سنتے ہیں۔ ان کا دفتر صرف کام کی جگہ نہیں، بلکہ انصاف کی امید بن چکی ہے۔
یہ صرف کسی ایک ادارے کی بات نہیں، ہمیں پورے ملک میں اس سوچ کی ضرورت ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ اصل ترقی سڑکوں، عمارتوں یا پلوں سے نہیں آتی بلکہ مضبوط اداروں، خوددار بیوروکریسی اور انسان دوست نظام سے آتی ہے۔ جو ملک اپنے اہل افراد کی عزت نہیں کرتے، وہ کبھی ترقی کی دوڑ میں شامل نہیں ہو سکتے۔
بیوروکریسی کا اصل حسن تب ابھرتا ہے جب افسر کرسی پر بیٹھ کر خود کو عوام کا نوکر سمجھے، جب فائل صرف کاغذ نہ ہو بلکہ کسی کی زندگی کا مسئلہ ہو، جب خواتین کو دفتر میں عزت، تحفظ اور احترام ملے جیسے بیٹیوں یا بہنوں کو ملتا ہے۔ علی عباس صاحب کا یہی رویہ ان کو دوسروں سے ممتاز بناتا ہے۔
کاش ہر دفتر میں علی عباس جیسے باکردار، نرم گو اور فرض شناس افسر موجود ہوں۔ ایسے افسران کسی وزارت کے مرہون منت نہیں ہوتے، یہ تو وہ چراغ ہیں جو خود روشنی کرتے ہیں اور دوسروں کا اندھیرا بانٹتے ہیں۔
سیاست اور بیوروکریسی، دونوں کو ایک دوسرے کی طاقت بننا ہوگا، نہ کہ کمزوری۔ اگر سیاستدان میرٹ پر یقین رکھیں اور اداروں میں اہل افراد کی تعیناتی کو ترجیح دیں، تو عوام کا نظام سے اعتماد بحال ہوگا۔ جب اعتماد بحال ہوگا تو معاشرہ ترقی کرے گا، اور جب معاشرہ ترقی کرے گا تو پاکستان ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا ہوگا۔
ایم کیو ایم جیسے سیاسی پلیٹ فارمز، جن کے پاس پڑھے لکھے اور گراونڈ ریئلیٹی کو سمجھنے والے افراد موجود ہیں، اگر ایسے کرداروں کی پشت پناہی کریں تو سیاست کا چہرہ بھی روشن ہو جائے گا۔
یہ ضروری ہے کہ ہم اپنے معاشرے میں ان کرداروں کو اجاگر کریں جو دوسروں کے لیے مشعل راہ بن سکتے ہیں۔ ایسے افراد کو ایوارڈز، اعزازات اور قومی سطح پر پہچان دینا ضروری ہے، تاکہ نوجوان نسل کو ایک نیا رول ماڈل ملے — جو دیانت، خلوص اور خدمت کا نام ہو۔
آخر میں یہی کہنا چاہوں گی:
خدارا! ایسے چراغوں کو ہوا مت دیجیے، ان کو پھیلنے دیجیے، تاکہ اندھیروں میں روشنی کی راہیں نکلیں۔
علی عباس جیسے افسر قوم کے اصل سرمائے ہیں، اور سیاستدانوں کا اصل امتحان یہی ہے کہ وہ اس سرمائے کی قدر کریں یا پھر نظام کو ویسے ہی چلنے دیں جیسے برسوں سے چل رہا ہے۔