تحریر: شکیلہ فاطمہ
پاکستان کی آزادی کو آج 78 برس بیت چکے ہیں۔ یہ وہ دن ہے جب برصغیر کے لاکھوں مسلمانوں نے قربانیاں دے کر ایک الگ وطن حاصل کیا۔ ایک ایسا وطن جہاں انصاف، مساوات اور ترقی کا خواب پورا ہونا تھا۔ لیکن سات دہائیوں کا یہ سفر ہمیں بتاتا ہے کہ ہم نے خوابوں کے چراغ جلانے کے بجائے ان پر سیاست کی دھول بکھیر دی۔ اگر ہم چین، بھارت اور دیگر ممالک کی ترقی کا موازنہ کریں تو وہ آج دنیا میں اپنی مضبوط معیشت، ٹیکنالوجی، صنعت اور تعلیم میں مقام رکھتے ہیں، جبکہ ہم آج بھی اندرونی جھگڑوں، سیاسی انتقام اور نااہلی کے کھیل میں الجھے ہوئے ہیں۔
ہمارا سیاسی سفر ابتدا سے ہی ہچکولے کھاتا رہا۔ پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان، جو بانیانِ پاکستان میں شامل تھے، ایک جلسے میں گولی کا نشانہ بنے۔ اس سانحے نے ملک کو پہلی بار غیر یقینی صورتحال میں دھکیل دیا۔ اس کے بعد سیاسی قیادت کے بجائے بیوروکریسی اور فوج نے آہستہ آہستہ طاقت اپنے ہاتھ میں لینا شروع کی۔ وزرائے اعظم بدلتے گئے، لیکن ملک میں استحکام نہ آ سکا۔
1950 کی دہائی میں کئی وزرائے اعظم صرف چند ماہ کے لیے اقتدار میں آئے اور سیاسی اختلافات یا ادارہ جاتی دباؤ کے باعث فارغ کر دیے گئے۔ 1958 میں جنرل ایوب خان نے مارشل لا نافذ کر کے سیاستدانوں کو گھر بھیج دیا۔ ان کے دور میں کچھ ترقیاتی منصوبے ضرور بنے، لیکن سیاسی جمہوریت کا قتل ہوا۔ چین اور بھارت اسی دوران صنعتی ترقی کی بنیاد رکھ رہے تھے جبکہ ہم سیاسی انجینئرنگ میں مصروف تھے۔
1971 میں مشرقی پاکستان کا سانحہ پیش آیا اور ملک دو لخت ہو گیا۔ اس کے بعد ذوالفقار علی بھٹو وزیراعظم بنے۔ انہوں نے آئین 1973 دیا، ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی، اور خارجہ پالیسی میں جرات مندانہ اقدامات کیے، لیکن سیاسی مخالفین کے ساتھ سخت رویہ اور بعض پالیسیوں نے ان کے خلاف محاذ کھڑا کیا۔ بالآخر 1977 میں جنرل ضیاء الحق نے مارشل لا نافذ کر کے انہیں ہٹا دیا اور بعد میں پھانسی دے دی۔ یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ ایک منتخب وزیراعظم کو انجام تک پہنچانے کے لیے انتقامی سیاست استعمال ہوئی، لیکن یہ سب سے المناک مثال ضرور تھی۔
ضیاء الحق کے دور میں سیاست پر قدغن لگائی گئی، لیکن بھارت نے اسی دوران آئی ٹی اور معیشت میں سرمایہ کاری شروع کی۔ چین نے اپنی معیشت کو اصلاحات دے کر دنیا کی سب سے بڑی برآمدی طاقت بننے کی راہ ہموار کی۔ ہم اس دوران سیاسی قیدیوں، سنسر شپ اور آمریت کی زد میں رہے۔
1988 میں بے نظیر بھٹو پہلی خاتون وزیراعظم بنیں۔ یہ لمحہ پاکستان کے لیے فخر کا تھا، لیکن ان کا دور بھی سازشوں اور کرپشن کے الزامات میں گھر گیا۔ 1990 میں انہیں فارغ کر دیا گیا۔ نواز شریف وزیراعظم بنے لیکن 1993 میں وہ بھی صدر اور فوج سے اختلافات کے باعث اقتدار سے باہر ہوئے۔ بے نظیر بھٹو واپس آئیں لیکن 1996 میں انہیں بھی پھر ہٹا دیا گیا۔ نواز شریف دوبارہ آئے لیکن 1999 میں جنرل پرویز مشرف نے مارشل لا لگا دیا۔ گویا وزیراعظم بننا ایک کرسی نہیں بلکہ ایک خطرناک کھیل کا حصہ بن گیا، جس میں کبھی بیٹی کے ساتھ جیل جانا پڑتا ہے اور کبھی جلاوطنی اختیار کرنا پڑتی ہے۔
مشرف کے دور میں کچھ معاشی بہتری کے اعداد و شمار پیش کیے گئے، لیکن سیاسی تقسیم بڑھتی گئی۔ 2008 میں جمہوریت واپس آئی تو یوسف رضا گیلانی وزیراعظم بنے۔ وہ سپریم کورٹ کے حکم پر نااہل ہوئے۔ راجہ پرویز اشرف آئے لیکن ان پر بھی کرپشن کے الزامات لگے۔ نواز شریف تیسری بار وزیراعظم بنے مگر پانامہ لیکس کے بعد نااہل کر دیے گئے۔ عمران خان تبدیلی کے نعرے کے ساتھ آئے لیکن وہ بھی پارلیمانی اکثریت کھونے اور سیاسی محاذ آرائی کے باعث اقتدار سے رخصت ہوئے۔ شہباز شریف کا دور بھی انتقامی سیاست سے محفوظ نہ رہا۔
یہ طویل فہرست اس حقیقت کو بے نقاب کرتی ہے کہ پاکستان میں کوئی بھی وزیراعظم اپنی مدت پوری نہیں کر سکا۔ سیاستدان ایک دوسرے کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے عدلیہ، اداروں اور سڑکوں کا استعمال کرتے رہے۔ عوام کے مسائل، تعلیم، صحت، معیشت اور صنعت کی ترقی پیچھے رہ گئی۔
دوسری طرف چین نے کمیونسٹ پارٹی کی قیادت میں پالیسیوں کا تسلسل برقرار رکھا۔ بھارت نے جمہوری تسلسل کے ساتھ پالیسی ریفارمز کیں اور ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کی۔ بنگلہ دیش، جو کبھی ہمارا حصہ تھا، آج ٹیکسٹائل برآمدات اور معاشی ترقی میں ہم سے آگے نکل چکا ہے۔
ہم نے اپنے بہترین دماغ بیرونِ ملک جانے پر مجبور کیے۔ نوجوانوں کو روزگار نہیں ملا۔ زراعت، جو ہماری معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے، پانی کی کمی اور پالیسیوں کے فقدان کا شکار رہی۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ نے مزید وسائل ختم کر دیے۔
78 سال بعد سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے آزادی کا حق ادا کیا؟ کیا ہم نے ان قربانیوں کا احترام کیا جو ہمارے بزرگوں نے دی تھیں؟ اگر آج بھی ہم نے ذاتی دشمنیوں، سیاسی انتقام اور نااہلی کے کھیل کو ختم نہ کیا تو اگلے 78 سال بھی ہمارے لیے ترقی کے بجائے تنزلی کی داستان ہوں گے۔ آزادی کا اصل مقصد تب پورا ہوگا جب ہم سیاسی استحکام، ادارہ جاتی ہم آہنگی اور عوامی فلاح کو اولین ترجیح دیں گے۔
14 اگست ہمیں یاد دلاتا ہے کہ یہ ملک ایک خواب کے طور پر بنا تھا۔ ہمیں اب یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ہم اس خواب کو حقیقت میں بدلنا چاہتے ہیں یا اسے سیاست کے کھیل میں برباد ہونے دینا چاہتے ہیں۔ قوموں کی ترقی کا راز اتحاد، قربانی اور تسلسل میں ہے۔ چین اور بھارت نے یہ کر دکھایا، ہمیں بھی اب یہ ثابت کرنا ہوگا کہ ہم آزادی کے اصل وارث ہیں۔