نقشِ قلم
تحریر: شکیلہ فاطمہ
عیدالاضحی کا تہوار ہمیشہ سے ایک بڑا انتظامی امتحان رہا ہے۔ قربانی کے بعد آلائشوں سے پیدا ہونے والی گندگی، بدبو، اور شکایات ہمارے معاشرے کا ایک "معمول” بن چکی تھیں۔ عوام بے بسی سے دیکھتے تھے، شکایت کرتے تھے اور پھر خاموش ہو جاتے تھے۔ مگر اس بار کچھ ایسا ہوا جس نے برسوں سے قائم اس مایوسی کو امید میں بدل دیا۔
اس سال عید پر لاہور، فیصل آباد، ملتان، راولپنڈی جیسے بڑے شہروں میں صفائی اور نظم و ضبط کا ایسا مظاہرہ دیکھنے کو ملا کہ لوگ حیرت زدہ رہ گئے۔ لیکن جو چیز سب سے زیادہ متاثر کن تھی، وہ یہ کہ صرف بڑے شہروں تک یہ انتظامات محدود نہیں تھے۔ اس بار تبدیلی کی ہوا چھوٹے شہروں اور قصبوں تک بھی پہنچی — اور میرے اپنے شہر چیچہ وطنی میں جو مناظر میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھے، وہ کسی انقلاب سے کم نہ تھے۔
قربانی کے فوراً بعد چیچہ وطنی کی گلیوں میں صفائی کی ٹیمیں پہنچ گئیں۔ بغیر کسی درخواست، شکایت یا سفارش کے۔ عملے نے آلائشیں اٹھائیں، جگہ جگہ چونا چھڑکا، پانی سے سڑکیں دھوئیں اور خوشبو کا بھی اہتمام کیا۔ یہی نہیں، عملے کے لوگ خود شہریوں سے کہہ رہے تھے:
"اگر کچھ باقی ہو تو ابھی بتائیں، ورنہ ہماری شکایت ہوگی اور ایکشن لیا جائے گا۔
ایسا طرزِ عمل ہم نے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ یہ محض صفائی کی سرگرمی نہیں تھی، یہ ایک نئے طرز حکمرانی کا مظہر تھا جس میں خدمت، ذمہ داری، اور جوابدہی تینوں شامل تھے۔
یہ سب کچھ ممکن ہوا کیونکہ پنجاب کی وزیر اعلیٰ محترمہ مریم نواز نے عوامی خدمت کو صرف نعرے تک محدود نہیں رکھا، بلکہ اس پر مکمل عملدرآمد بھی کر دکھایا۔ ان کی طرف سے عوام کو ایک واٹس ایپ نمبر فراہم کیا گیا، جس پر کسی بھی وقت شکایت کی جا سکتی تھی اور شکایت نہ صرف سنی جاتی تھی بلکہ اس پر فوری عمل بھی ہوتا تھا۔
چیچہ وطنی کے کئی شہریوں نے اس سسٹم کا استعمال کیا۔ کسی نے گلی کی صفائی کی شکایت کی، کسی نے کچرے کے ڈھیر کا مسئلہ اٹھایا، اور حیرت انگیز طور پر چند گھنٹوں میں ٹیم وہاں پہنچ گئی۔ عوام کے دلوں میں پہلی بار یہ احساس پیدا ہوا کہ ان کی آواز اب واقعی ایوانِ اقتدار تک پہنچ رہی ہے۔


یہ وہ تبدیلی ہے جو محض پالیسی سے نہیں، نیت، لگن اور مسلسل نگرانی سے آتی ہے۔ اور مریم نواز نے یہ ثابت کر دیا کہ اگر لیڈر ایماندار ہو، بااختیار ہو اور نیت صاف ہو، تو سسٹم کو بھی بدلنا ممکن ہے۔
اس کامیابی کا ایک اور اہم پہلو "خوف” تھا مگر یہ خوف کسی دباؤ یا ظلم کا نہیں بلکہ "احتساب” کا تھا۔ صفائی کے اہلکار جانتے تھے کہ اگر وہ غفلت برتیں گے تو اب وہ چھپ نہیں سکیں گے۔ کیونکہ وزیر اعلیٰ خود عوام کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں۔ ہر شہری ان کی آنکھ اور کان بن چکا ہے۔
یہی حکمرانی کا اصل حسن ہے شفافیت، خدمت اور سزا جزا کا واضح نظام۔
اب جب عوام صفائی جیسے بنیادی حق سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، تو سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہی وژن ہم دیگر شعبوں میں بھی دیکھیں گے؟ خاص طور پر خواتین کے حوالے سے۔ میری عاجزانہ گزارش ہے کہ مریم نواز اسی جذبے سے خواتین کے لیے بھی فوری انصاف کے سیل قائم کریں۔ جیسے واٹس ایپ شکایتی نظام صفائی کے لیے کامیاب ہوا، ویسے ہی خواتین کے لیے علیحدہ ہیلپ لائن، آن گراؤنڈ سیل، اور قانونی ٹیمیں قائم کی جائیں۔
خواتین کو گھریلو تشدد، ہراسانی، وراثت اور ملازمت کے معاملات میں تیز تر رسائی اور تحفظ فراہم کیا جائے۔ کیونکہ اگر ایک خاتون وزیر اعلیٰ ہوتے ہوئے، وہ اس درد کو نہ سمجھے تو پھر اور کون سمجھے گا؟ اور ہمیں یقین ہے کہ مریم نواز اس میدان میں بھی وہی مثالی کارکردگی دکھائیں گی جو صفائی کے نظام میں نظر آئی۔


یہ سچ ہے کہ مریم نواز کی سیاست صرف انتخابی وعدوں پر نہیں چل رہی، بلکہ ایک وژن پر چل رہی ہے۔ ان کی شخصیت میں وہ پختگی ہے جو وقت، آزمائش اور جدوجہد نے عطا کی ہے۔ جیل کے دن، کردار کشی، سیاسی مخالفت — یہ سب سہنے کے بعد بھی وہ نہ ٹوٹیں، نہ جھکیں۔ ان کی قیادت میں ہمیں صرف ایک سیاستدان نہیں، ایک عملی، سمجھدار اور مستقل مزاج لیڈر نظر آتی ہے۔
مریم نواز نے اپنے والد نواز شریف سے سیاست کا سبق لیا ہے، مگر اب وہ خود ایک "استاد” بنتی جا رہی ہیں۔ ان کے فیصلے، اقدامات اور ترجیحات ثابت کر رہے ہیں کہ وہ صرف پنجاب کی وزیر اعلیٰ نہیں، بلکہ ایک نئی سیاسی سوچ کی نمائندہ ہیں وہ سوچ جو "عوام کی خدمت” کو سیاست کا مرکز بناتی ہے۔
اگر یہی تسلسل برقرار رہا، تو وہ دن دور نہیں جب پنجاب واقعی ایک ماڈل صوبہ کہلائے گا۔ لوگ لاہور، فیصل آباد یا راولپنڈی کو دیکھ کر نہیں بلکہ چیچہ وطنی جیسے شہروں کو دیکھ کر کہیں گے کہ "یہ ہے نیا پنجاب!” اگر عزم اور عمل کا یہی جذبہ جاری رہا، تو "منی دبئی” کی اصطلاح کوئی مذاق نہیں بلکہ حقیقت بن سکتی ہے۔
آخر میں، ایک عام شہری ایک صحافی اور کالم نگار ہونے کے ناتے، میں یہ ضرور کہوں گی کہ جہاں ہم تنقید کرتے ہیں، وہاں ہمیں تعریف بھی کرنی چاہیے۔ اور مریم نواز کی موجودہ کارکردگی ہر پہلو سے تعریف کی حقدار ہے۔ انہوں نے صرف صفائی نہیں کروائی، بلکہ عوام کو عزت، آواز، اور اعتماد دیا ہے۔
اور شاید یہی وہ معیار ہے، جس پر ایک لیڈر پرکھا جاتا ہے۔

