"تحریر: شکیلہ فاطمہ "
پاکستانی سیاست میں وقت کبھی بھی ایک سا نہیں رہتا۔ آج جو دروازے بند ہیں کل وہ خودبخود کھلتے ہیں۔ جو چہرے کل دور تھے وہ آج قریب آ جاتے ہیں۔ کوئی دکھ ہو یا غم، رشتہ ہو یا رسم، سیاستدانوں کی بیٹھک میں ہر واقعے کا کوئی نہ کوئی سیاسی پہلو ضرور نکالا جاتا ہے۔ یہی کچھ اس وقت بھی دکھائی دیا جب وزیراعظم شہباز شریف انتیس جون کو اچانک چوہدری نثار علی خان کی رہائش گاہ پہنچے۔ بظاہر مقصد چوہدری نثار کی بہن کے انتقال پر تعزیت کرنا تھا۔ مرحومہ گورنر پنجاب سلیم حیدر کی خوشدامن بھی تھیں۔ یوں ایک خاندانی رشتہ داری کی کڑی بھی بنی۔ لیکن سیاسی حلقے سوال کر رہے ہیں کہ کیا واقعی یہ صرف تعزیت تھی یا اس کے پیچھے بھی کوئی پیغام پوشیدہ تھا۔
چوہدری نثار کا نام مسلم لیگ ن کی سیاست میں کبھی بھی غیر متعلقہ نہیں رہا۔ پرویز مشرف کے مارشل لا کے زمانے میں جب بیگم کلثوم نواز نے مشکل وقت میں کارکنوں کو سڑکوں پر نکالنے کی ٹھانی تو اس وقت نثار سے بھی رابطہ کیا گیا۔ روایت ہے کہ انہوں نے بیماری کا عذر کر دیا لیکن اسی شام وہ راولپنڈی کی سڑکوں پر دیکھے گئے۔ یہ واقعہ آج بھی پرانے کارکنوں کو یاد ہے۔ چوہدری نثار کو ہمیشہ پارٹی کے اندر طاقتور شخصیت مانا گیا۔ ان کا لب و لہجہ، سلیقہ اور فیصلہ سازی میں وزن ان کی الگ پہچان رہا ہے۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سے ان کے تعلقات ہمیشہ خوشگوار رہے ہیں۔ ان کا خاندانی پس منظر بھی فوجی ہے جس نے کئی موڑ پر ان کی سیاست کو تحفظ دیا۔
جاوید ہاشمی جیسے سینئر سیاستدان کی مسلم لیگ ن سے دوری میں بھی چوہدری نثار کا ذکر اکثر آتا ہے۔ سیاسی مبصر آج بھی کہتے ہیں کہ اگر کچھ چہرے درمیانی کردار ادا نہ کرتے تو جاوید ہاشمی کبھی پارٹی سے ناراض نہ ہوتے۔ لیکن یہ سب باتیں ماضی کی کہانیوں کا حصہ بن گئیں۔ وقت بدلا، نثار نے نون لیگ کی پالیسیوں سے اختلاف کیا اور خود کو الگ کر لیا۔ آزاد حیثیت سے الیکشن لڑا، کبھی جیتے کبھی ہارے، لیکن رسمی طور پر پارٹی میں واپسی نہ کی۔
شہباز شریف اور چوہدری نثار کا رشتہ ہمیشہ احتیاط اور فاصلے پر قائم رہا۔ کبھی قریب کبھی دور۔ آج جب شہباز شریف خود نثار کی دہلیز پر پہنچے تو سیاسی حلقے اس تعزیت کو بھی سیاسی دروازہ سمجھ رہے ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ محض ایک روایت تھی۔ بعض اسے پنجاب میں بدلتے سیاسی موسم کی علامت سمجھ رہے ہیں۔
اسی تناظر میں پیپلز پارٹی کی کہانی بھی اہم ہے۔ اس وقت مرکز میں حکومت اتحادیوں کے سہارے چل رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کے پاس صدر پاکستان کا عہدہ بھی ہے اور چیئرمین سینیٹ کی کرسی بھی انہی کے پاس ہے۔ آصف علی زرداری صدر ہیں جبکہ یوسف رضا گیلانی چیئرمین سینیٹ ہیں۔ اس کے باوجود پیپلز پارٹی ابھی تک کابینہ میں عملی طور پر شامل نہیں ہوئی۔ حکومت چاہتی ہے کہ پیپلز پارٹی اب براہ راست وزارتوں میں آئے تاکہ اقتدار کی گاڑی اور مستحکم ہو۔ اس کے لیے رابطے ہو رہے ہیں۔ بارہا پیشکش دی جا رہی ہے کہ وزارتیں لیں، فیصلوں میں حصہ دار بنیں، سیاسی ذمہ داری بانٹیں۔ لیکن پیپلز پارٹی بوجھ لینے سے گریزاں ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ آئینی عہدے برقرار رہیں لیکن مہنگائی اور سخت معاشی فیصلوں کا براہ راست بوجھ مسلم لیگ ن پر ہی رہے۔ بلاول بھٹو خود کہہ چکے ہیں کہ وہ اس وقت وزارت لینے کے حق میں نہیں۔ آصف زرداری کا بیانیہ بھی یہی ہے کہ اب زیادہ محتاط سیاست کی جائے۔
شہباز شریف کو معلوم ہے کہ پنجاب کی سیاست ہمیشہ وفاقی سیاست کو متاثر کرتی ہے۔ اسی لیے پرانے دوستوں کو دوبارہ قریب کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ چوہدری نثار جیسے اثر و رسوخ رکھنے والے سیاستدان اگر دوبارہ متحرک ہوں تو پنجاب کی حد تک کئی حلقے پیغام لیں گے کہ نون لیگ پرانی صف بندی کی طرف واپس جانا چاہتی ہے۔ پارٹی میں اندرونی دھڑے پھر متحرک ہوں گے۔ کچھ ناراض گروپ دوبارہ قافلے کا حصہ بن سکتے ہیں۔ نثار جیسے لوگ الیکشن جیتنے کی مشینری تو نہیں لیکن ان کا حلقہ اثر چھوٹے بڑے رہنماؤں کو پارٹی میں واپس لا سکتا ہے۔
دوسری طرف پیپلز پارٹی کی شمولیت کا معاملہ بھی اب فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔ پیپلز پارٹی اگر مرکز میں وزارتیں لے گی تو آنے والے دنوں میں بجٹ سے لے کر معاشی فیصلوں تک سب کی ذمہ داری مشترک ہو گی۔ یوں مسلم لیگ ن تنہا سیاسی بوجھ نہیں اٹھائے گی۔ لیکن اگر پیپلز پارٹی نے روایتی پالیسی اپنائی تو وہ آئینی عہدے برقرار رکھے گی اور عملی کابینہ سے دور ہی رہے گی۔ یہی وجہ ہے کہ نون لیگ اپنے طور پر بھی پرانے پتوں کو کھیل رہی ہے۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ چوہدری نثار اگر متحرک ہوئے تو ان کے ذریعے جنوبی پنجاب اور راولپنڈی ڈویژن کے کئی گروپوں کو اشارہ دیا جا سکتا ہے۔ پارٹی کے سینئر رہنما اس بات سے واقف ہیں کہ الیکشن قریب آتے ہی پرانے دھڑوں کا واپس آنا کتنا ضروری ہے۔ چوہدری نثار کی سیاسی چالیں کبھی تیز کبھی سست رہتی ہیں۔ وہ خود بھی حالات دیکھتے ہیں، بات کرتے ہیں اور پھر منظر سے غائب ہو جاتے ہیں۔ اسی لیے شہباز شریف کی حاضری کو محض ایک رسمی تعزیت ماننا مشکل ہے۔
یہی سیاست کا چہرہ ہے۔ جہاں دکھ اور خوشی، رشتہ اور روایت سب کچھ اقتدار کی راہداریوں میں معنی بدل لیتا ہے۔ آج اگر چوہدری نثار کا دروازہ کھلا ہے تو کل اس دروازے سے کیا نکلے گا، یہ آنے والے دنوں میں واضح ہو گا۔ پیپلز پارٹی مرکز میں کھل کر آئے گی یا نہیں؟ چوہدری نثار پارٹی کی سیاست میں کوئی عملی کردار لیں گے یا نہیں؟ اتحادی حکومت کب تک متحد رہے گی؟ ان سب سوالوں کے جواب اگلے چند مہینوں میں سامنے آئیں گے۔
یہ طے ہے کہ سیاست میں کبھی کچھ ختم نہیں ہوتا۔ بس چہرے بدلتے ہیں وقت بدلتا ہے ترجیحات بدلتی ہیں۔ باقی سب ویسا ہی رہتا ہے جیسا ستر سال سے چل رہا ہے۔ اقتدار کا کھیل اسی لیے خطرناک ہے کہ اس کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ جو کل مخالف تھا وہ آج ساتھ بیٹھا نظر آتا ہے۔ جو آج دست بردار ہے وہ کل بازی پلٹ سکتا ہے۔ یہی پاکستان کی سیاست ہے یہی حقیقت ہے یہی سبق ہے۔