تحریر: شکیلہ فاطمہ
بیوروکریسی کسی بھی ملک کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ نظام وہ بنیادی ڈھانچہ ہے جس کے ذریعے ریاست اپنے امور چلاتی ہے۔ ایک ملک کے اندر اگر سیاستدان وژن فراہم کرتے ہیں، تو بیوروکریسی اس وژن کو عملی جامہ پہناتی ہے۔ یہ دونوں ایک گاڑی کے دو پہیے ہیں؛ ایک کے بغیر دوسرے کی سمت درست نہیں ہو سکتی۔ سیاستدان خواہ کتنے ہی بلند بانگ دعوے کر لے، اگر اس کے ساتھ ایک دیانتدار، باصلاحیت اور فرض شناس بیوروکریسی نہ ہو تو وہ خواب، خواب ہی رہ جاتے ہیں۔
ہمارے ہاں عمومی تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ بیوروکریسی کا رویہ سخت گیر، غیر لچکدار اور بے حس ہوتا ہے۔ لوگوں کو دفاتر کے چکر کاٹنے پڑتے ہیں، معمولی کاموں کے لیے سفارش، رشوت یا مہینوں کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ ان تمام تلخ تجربات نے عوام اور بیوروکریسی کے درمیان ایک خلیج پیدا کر دی ہے۔ لیکن یہ مکمل سچ نہیں۔ ہر نظام میں کچھ روشن چہرے ایسے ہوتے ہیں جو اندھیرے میں امید کی کرن بن کر ابھرتے ہیں۔
حال ہی میں میرا اسلام آباد جانا ہوا، جہاں میں پاکستان نرسنگ کونسل گئی۔ وہاں ایک منظر نے میرے دل پر ایک عجیب سا سکون نازل کیا۔ وہاں موجود سرکاری افسر عباس علی نہایت انکساری اور شفقت سے لوگوں کے مسائل سن رہے تھے۔ ان کے چہرے پر مسکراہٹ، لہجے میں نرمی اور انداز میں خلوص نمایاں تھا۔ مرد و خواتین اپنے مسائل لے کر ان کے پاس آتے، وہ انہماک سے سنتے اور فوری حل تلاش کرتے۔ علی عباس کی شخصیت میں خلوص اور خدمت کا جذبہ اتنا نمایاں تھا کہ دل سے دعا نکلی: کاش ایسے کردار پاکستان کے ہر دفتر، ہر شعبے اور ہر شہر میں موجود ہوں۔
یہ چھوٹا سا تجربہ میرے ذہن میں کئی سوالات کو جنم دینے لگا۔ اگر بیوروکریسی کا ہر فرد ایمانداری، خلوص، اور فرض شناسی سے کام کرے، تو کیا ہماری ریاست کی سمت درست نہیں ہو سکتی؟ اگر ہر دفتر میں ایسا ماحول ہو جہاں سائل خود کو عزت دار شہری سمجھے، تو کیا لوگوں کا نظامِ حکومت پر اعتماد بحال نہیں ہو جائے گا؟ جب میرٹ پر کام ہو گا، جب سفارش کی جگہ قابلیت کو ترجیح دی جائے گی، جب افسران خود کو عوام کا خادم سمجھیں گے نہ کہ آقا، تو یہی وہ لمحہ ہو گا جب ترقی کا سفر شروع ہو گا۔
ہمیں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سیاست دان اور بیوروکریسی ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ سیاست دان اگر پالیسیاں بناتے ہیں، تو بیوروکریٹس ان پالیسیوں کو عمل میں لاتے ہیں۔ سیاست دان قومی ویژن پیش کرتا ہے، مگر اس ویژن کو حقیقت میں ڈھالنے کے لیے جو ذہن، مہارت اور تجربہ درکار ہے، وہ بیوروکریسی فراہم کرتی ہے۔ اگر ان دونوں میں ہم آہنگی، دیانت، اور مقصد کی یکسانیت ہو تو ریاست میں استحکام آتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں یہ توازن اکثر بگڑا ہوا نظر آتا ہے۔ سیاست دان ذاتی مفاد کے تحت تبادلے کرتے ہیں، پسندیدہ افسران کو چنتے ہیں، اور یوں بیوروکریسی کی خودمختاری مجروح ہوتی ہے۔ جب افسران کو یقین ہو کہ ان کی ترقی، عزت اور مقام صرف اور صرف کارکردگی سے مشروط ہے، تب وہ اپنی تمام تر صلاحیتیں ملک و قوم کے لیے وقف کر دیتے ہیں۔
بیوروکریسی صرف فائلوں تک محدود نہیں۔ یہ انسانوں کے ساتھ کام کرنے والا نظام ہے۔ ہر دن، ہر گھنٹہ، ہر منٹ کسی نہ کسی شہری کا کسی بیوروکریٹ سے واسطہ پڑتا ہے۔ یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جو کسی انسان کے دل میں ریاست کے بارے میں تاثر قائم کرتا ہے۔ اگر وہ لمحہ خوشگوار ہو، اگر اسے عزت ملے، اگر اس کی بات سنی جائے، تو وہ شخص ریاست پر فخر کرتا ہے۔ لیکن اگر اسے دھتکارا جائے، تذلیل ہو، یا رشوت مانگی جائے، تو وہ ریاست سے نفرت کرنے لگتا ہے۔ بیوروکریسی کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وہ محض ایک نوکری نہیں بلکہ ایک مقدس امانت کی پاسبانی ہے۔
ایسے ہی کردار، جیسے میں نے نرسنگ کونسل میں عباس علی کی صورت میں دیکھے، ہماری اجتماعی امید کا چراغ ہیں۔ ان کے وجود سے یہ پیغام ملتا ہے کہ سب کچھ ختم نہیں ہوا۔ ابھی بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو میرٹ کو مانتے ہیں، عوام کی خدمت کو عبادت سمجھتے ہیں، اور اخلاقیات کو اپنی شخصیت کا حصہ بناتے ہیں۔ اگر ہم بطور معاشرہ ان کرداروں کی حوصلہ افزائی کریں، ان کے کام کو سراہیں، اور ان کو مثال بنائیں، تو ممکن ہے کہ دوسروں کو بھی راستہ دکھائی دے۔
بیوروکریسی کے لیے ضروری ہے کہ وہ خود کو خود احتسابی کے عمل سے گزارے۔ جدید دنیا میں گورننس کے اصول بدل رہے ہیں۔ شفافیت، رسائی، اور جواب دہی بنیادی اصول بن چکے ہیں۔ اب یہ وقت آ چکا ہے کہ ہمارے بیوروکریٹس بھی خود کو بدلیں۔ انہیں یہ جان لینا چاہیے کہ عوام کی خدمت میں جو عزت ہے، وہ کسی بھی عہدے یا تنخواہ سے کہیں بڑھ کر ہے۔
آخر میں، میری یہ دلی دعا ہے کہ وہ جذبہ، جو میں نے اسلام آباد میں پاکستان نرسنگ کونسل میں عباس علی کی صورت میں محسوس کیا، وہ پورے پاکستان کے دفاتر میں سرایت کر جائے۔ کاش ہمارے ہر شہری کو ایسا بیوروکریٹ میسر آئے جو اس کی بات سنے، سمجھنے کی کوشش کرے، اور خندہ پیشانی سے حل نکالے۔ یہ خواب مشکل ضرور ہے، لیکن ناممکن نہیں۔ تبدیلی صرف ایک چراغ جلانے سے آتی ہے۔ اگر ایک بھی شخص اپنا فرض ایمانداری سے ادا کرے، تو وہ کئی زندگیاں بدل سکتا ہے۔