پاکستان میں چینی کے مصنوعی بحران نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ جب حکومتی گرفت کمزور ہو اور مافیا مضبوط، تو عوام کا کوئی پرسانِ حال نہیں رہتا۔ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق پچھلے چھ ماہ میں چینی مافیا نے فی کلو چینی کی قیمت میں 55 روپے تک اضافہ کر کے قوم کی جیب سے 90 ارب روپے نکال لیے۔
اعداد و شمار کے مطابق ملک میں 24 لاکھ ٹن چینی فروخت ہوئی۔ پچھلے چھ ماہ میں چینی کی فی کلو قیمت 127 روپے سے بڑھ کر 205 روپے تک پہنچ گئی۔ مل مالکان، ذخیرہ اندوز، سٹہ باز اور بااثر تاجروں نے ملی بھگت سے پہلے چینی کو باہر برآمد کیا، پھر ملک میں قلت پیدا کی اور اس کے بعد ریٹ دگنے کر دیے۔
دلچسپی کی بات یہ ہے کہ اسی کھیل کو مزید مضبوط بنانے کے لیے 85 روپے فی کلو پر عائد ٹیکس اور ڈیوٹی بھی معاف کرا لی گئی، یعنی قومی خزانے کو بھی اربوں کا نقصان اور منافع صرف مافیا کی جیب میں۔
یہ سب کچھ عوام کی آنکھوں کے سامنے ہوتا رہا لیکن حکومت بے بس نظر آئی۔ جو ادارے قیمتیں کنٹرول کرنے کے ذمہ دار ہیں، وہ دعوے اور اجلاسوں تک محدود رہے۔ عوام کی جیب پر ڈاکہ ڈالنے والا یہ سٹہ گروپ پہلے بھی کئی بار اپنی طاقت دکھا چکا ہے اور اب پھر کامیاب ہوگیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ آخر کب تک چند خاندان اور گروپ پورے ملک کی معیشت اور عوام کے مفادات کو یرغمال بناتے رہیں گے؟ حکومت اگر واقعی سنجیدہ ہے تو اسے فوری طور پر چینی کی برآمدات پر پابندی، ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کارروائی، اور مصنوعی قلت پیدا کرنے والوں کو نشان عبرت بنانا ہوگا۔
ورنہ ہر سال عوام کو اسی طرح چینی، آٹا، گھی اور پیٹرول مافیا کے ہاتھوں اربوں کا نقصان برداشت کرنا پڑے گا اور حکومت تماشائی بنی رہے گی۔
چینی مافیا کا نیا ڈاکہ: چھ ماہ میں عوام کی جیب سے 90 ارب کا صفایا
15.7K