(تحریر شکیلہ فاطمہ)
مریم نواز نے ایک دفعہ پھر یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ نہ صرف ایک متحرک سیاسی رہنما ہیں بلکہ ایک سنجیدہ دوراندیش اور عوامی مسائل کا ادراک رکھنے والی رہنما بھی ہیں۔ ان کے زیرقیادت پیش کیا گیا پنجاب کا بجٹ اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ اگر ارادہ ہو وژن ہو اور نیت صاف ہو تو محدود وسائل کے باوجود بھی بڑے فیصلے کیے جا سکتے ہیں۔
پنجاب کے بجٹ میں جن نکات کو مرکزی حیثیت دی گئی ہے وہ عوامی مفاد ترقیاتی منصوبوں مہنگائی کے بوجھ میں کمی اور نوجوانوں کے لیے روزگار جیسے شعبوں میں واضح تبدیلی کی عکاسی کرتے ہیں۔ بجٹ کا کل حجم 5.44 کھرب روپے ہے، جو کہ موجودہ معاشی حالات کے پیش نظر متوازن بھی ہے اور حقیقت پسندانہ بھی۔ اس میں سے 842 ارب روپے ترقیاتی بجٹ کے لیے مختص کیے گئے ہیں جو پچھلی حکومتوں کے مقابلے میں نمایاں اضافہ ہے۔ اس اضافے کا مطلب صرف سڑکیں یا پل نہیں بلکہ اسکول اسپتال روزگار خواتین کی خودمختاری اور نوجوانوں کے لیے باعزت مواقع ہیں۔
مریم نواز کی حکومت نے اس بجٹ میں چند نمایاں منصوبے بھی متعارف کروائے ہیں، جن کا براہ راست فائدہ عوام کو پہنچے گا۔ سب سے پہلے، “پنجاب روزگار پروگرام” کے تحت نوجوانوں کے لیے بلاسود قرضوں کا اجراء کیا جائے گا تاکہ وہ اپنے چھوٹے کاروبار شروع کر سکیں۔ اس سے نہ صرف بے روزگاری میں کمی آئے گی بلکہ ایک نیا مڈل کلاس بزنس کلچر بھی پروان چڑھے گا۔
اسی طرح مفت صحت سہولت کارڈکو دوبارہ فعال کیا جا رہا ہے تاکہ غریب طبقے کو مہنگے علاج سے چھٹکارا حاصل ہو سکے۔ مریم نواز نے خاص طور پر خواتین کے لیے بھی کئی اقدامات کا اعلان کیا ہے جن میں "ویمن امپاورمنٹ سینٹرز”، ہنر مند خواتین کے لیے بلا سود قرضے اور دیہی علاقوں میں خواتین کے لیے تعلیم و تربیت کے منصوبے شامل ہیں۔ یہ تمام اقدامات اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ وہ خواتین کو محض ووٹ بینک نہیں سمجھتیں بلکہ انہیں ترقی کا حقیقی ستون تسلیم کرتی ہیں۔
بجٹ میں سڑکوں کے جال بچھانے کے منصوبے بھی شامل ہیں جن میں لاہور راولپنڈی ملتان بہاولپور سرگودھا فیصل آباد اور گوجرانوالہ کے مابین جدید سڑکوں اور بائی پاسز کی تعمیر شامل ہے۔ ان منصوبوں کا مقصد صرف سفری سہولت نہیں بلکہ دیہی اور شہری علاقوں کو ایک دوسرے سے جوڑنا تجارت کو فروغ دینا اور نقل و حمل کے اخراجات کو کم کرنا ہے۔ لاہور میں ماس ٹرانزٹ سسٹم کی بہتری اور دیگر شہروں میں بس سروس کا آغاز بھی بجٹ کا حصہ ہے۔
اس بجٹ کی سب سے مثبت بات یہ ہے کہ اس میں عوام پر نئے ٹیکسوں کا بوجھ نہیں ڈالا گیا بلکہ موجودہ وسائل کو بہتر انتظامی صلاحیت کے تحت بروئے کار لانے کی کوشش کی گئی ہے۔ مالی نظم و ضبط کی پابندی کرتے ہوئے ترقیاتی منصوبے ترتیب دینا کوئی آسان کام نہیں لیکن مریم نواز کی ٹیم نے یہ کر دکھایا ہے۔ یہ سب کچھ اس وقت ممکن ہوا جب ملک معاشی مشکلات بڑھتے ہوئے قرضوں اور اندرونی و بیرونی دباؤ کا شکار ہے۔
تاہم اس ساری تصویر میں ایک لمحۂ فکریہ بھی چھپا ہوا ہے وہ یہ کہ ہم کب تک بیرونی قرضوں کے سہارے بجٹ بناتے رہیں گے؟ کاش ہم ایک دن وہ ملک بن جائیں جو اپنے پاؤں پر کھڑا ہو جو بجٹ بناتے وقت کسی آئی ایم ایف یا عالمی مالیاتی ادارے کی طرف نہ دیکھے۔ اس حوالے سے نائیجر کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ افریقہ کا یہ چھوٹا سا ملک جو کبھی شدید غربت بدعنوانی اور خانہ جنگی کا شکار رہا، اس نے 2025 میں ایک شاندار سنگِ میل عبور کیا اپنے تمام غیر ملکی قرضے اتار دیے۔
نائیجر کے صدر نے اپنی پارلیمنٹ سے خطاب میں کہا کہ "ہم نے آج صرف قرض ادا نہیں کیا بلکہ اپنی خودداری واپس حاصل کی ہے۔ ہم اب اپنی بجٹ کتاب خود لکھیں گے ہمارے فیصلے ہمارے لوگ کریں گے نہ کہ بیرونی مالیاتی ایجنسیاں۔” یہ وہ جملے تھے جنہوں نے دنیا بھر میں ترقی پذیر ممالک کے لیے ایک نئی امید جگا دی۔ کیا ہم پاکستان میں بھی یہ خواب دیکھ سکتے ہیں؟ بالکل لیکن اس کے لیے وہی سنجیدگی دیانتداری اور قوم کو ساتھ لے کر چلنے والی قیادت درکار ہے جو نائیجر کی قیادت نے دکھائی۔
مریم نواز کے حالیہ اقدامات اس سمت میں پہلا قدم ہو سکتے ہیں۔ ان کا ترقیاتی بجٹ صرف سیاسی نعروں کا مجموعہ نہیں بلکہ عملی اقدامات کا خاکہ ہے۔ جس انداز میں انہوں نے نوجوانوں خواتین دیہی علاقوں اور پسماندہ طبقے کو بجٹ کا حصہ بنایا ہے وہ اس بات کا غماز ہے کہ وہ اس نظام کو درست کرنا چاہتی ہیں، نہ کہ صرف اقتدار کا مزہ لینا۔
اس وقت پاکستان کو ایسی ہی قیادت کی ضرورت ہے جو صرف آج نہیں بلکہ آنے والے کل کا سوچے۔ جو عوام سے جھوٹے وعدے نہ کرے بلکہ ان کے حالات بدلنے کے لیے سچائی کے ساتھ کام کرے۔ اگر مریم نواز اور ان کی ٹیم اس رفتار سے کام جاری رکھتی ہے تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پنجاب ایک بار پھر ترقی کا انجن بن سکتا ہے اور شاید باقی صوبے بھی اسی راہ پر چلنے پر مجبور ہو جائیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر حکومت پر تنقید ہوتی ہے ہر فیصلے پر سوال اٹھتے ہیں لیکن جس انداز سے مریم نواز نے بجٹ میں متوازن عوام دوست اور ترقیاتی پہلوؤں کو سمویا ہے وہ قابلِ تحسین ہے۔