(تحریر شکیلہ فاطمہ) کینسر کے بعد ایک طویل عرصے بعد میں اسلام آباد گئی تو وہاں میرے محسن رؤف کلاسرا سے ملاقات ہوئی۔ یہ وہ شخصیت ہیں جو میرے لیے اللہ کے بعد نئی زندگی کا ذریعہ بنے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے، صبح کے پانچ بجے کا وقت تھا جب میں نے انہیں کال کی۔ مجھے مالی ضرورت تھی، وہ ایئرپورٹ پر تھے مگر چھ بجے تک اپنا ڈرائیور میرے پاس بھیج دیا۔ میرا ان سے محبت اور شفقت کا رشتہ 2011 میں بنا جب میں طالبعلم تھی۔
مجھے شروع سے ہی سیاسی کتابیں پڑھنے کا شوق تھا۔ جب کوئی سیاسی یا بڑی شخصیت مجھ سے ملتی، کم عمری کے باوجود میرے نالج کو دیکھ کر حیران ہوتی۔ میں نے "ایک سیاست، کئی کہانیاں” پہلے ہی پڑھ رکھی تھی، اور اپنے تھیسس کے لیے اس کتاب کا انتخاب کیا۔ اس مقصد کے لیے اسلام آباد جا کر رؤف کلاسرا صاحب کا انٹرویو کیا۔ ان کے دوست عامر متین صاحب نے اپنے گھر پرتکلف عشائیہ دیا، تب سے آج تک ان کے ساتھ محبت اور شفقت کا یہ رشتہ برقرار ہے۔
میری بیماری اور مشکل وقت میں اس شخصیت نے کبھی مجھے اکیلا نہیں چھوڑا۔ طویل عرصے بعد ہونے والی ملاقات میں بہت سے موضوعات زیر بحث آئے، جن میں سیاسی صورتحال، لندن میں میاں نواز شریف کی جلاوطنی کا دور، اور میری صحت شامل تھی۔ میں نے بتایا کہ اب بیماری بہتر ہے، اگرچہ ادویات کا مسلسل استعمال جاری رہے گا، لیکن میں اپنے پیروں پر کھڑی ہو چکی ہوں۔ انہوں نے نیک خواہشات کا اظہار کیا اور مکمل تعاون کا یقین دلایا۔
اگرچہ وہ اپنی کتابیں تحفے میں نہیں دیتے، مگر میں خوش نصیب ہوں کہ انہوں نے مجھے اپنی کتاب "نرالے لوگ، نرالی کہانیاں” گفٹ کی۔ میں نے بیس دن لگا کر نہایت دلجمعی سے کتاب کا مطالعہ کیا اور تین بار اسے پڑھا۔ ہر کہانی میرے لیے ایک سبق چھوڑ گئی اور بہت سی کہانیاں میرے لیے ہمت کا باعث بنیں۔ اس کتاب نے سکھایا کہ محنت سے اپنے خواب کیسے پورے کیے جا سکتے ہیں۔

اس کے بعد شکیل انجم سے ملاقات کی خواہش شدت اختیار کر گئی۔ سابق وزیر اعلیٰ پنجاب نواب صادق قریشی نے 1979 کی دہائی میں جس طرح ملتان کے ڈپٹی کمشنر سے انکار کا بدلہ لیا، اس کہانی نے مجھے بےحد متاثر کیا۔ "بھارتی ماں کی آخری خواہش” دل چھو لینے والی داستان تھی جبکہ "گاؤں کا کالو قصائی” ایک منفرد کہانی ثابت ہوئی۔ "مکتب عشق کا دستور نرالا دیکھا” نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا۔ عدالتی جبر پر لکھی گئی کہانی بھی بہت سبق آموز تھی۔

رؤف کلاسرا نے نواز شریف کے عدالتی معاملات پر بھی لکھا، جو آج کے حالات سے مشابہ معلوم ہوتے ہیں۔ انہوں نے شاہین صہبائی کا ذکر بھی کیا، جن سے ملنے کی خواہش اب شدت اختیار کر گئی ہے۔ میں ان سے ملاقات کر کے ان کے ہاتھ عقیدت سے چوموں گی اور شکریہ ادا کروں گی کہ انہوں نے ہمیں ڈاکٹر عاصم صہبائی جیسے ہیروں سے نوازا۔ اگر وہ نہ ہوتے، تو شاید میں بھی نہ ہوتی۔
"کینسر وارڈ” کہانی نے مجھے رُلا دیا، کیونکہ میرا اور اس کہانی میں موجود "ماں جی” کا دکھ ایک جیسا لگا۔ ان کی وفات کو 32 سال گزر چکے ہیں لیکن وہ مجھے کل کی بات لگتی ہے۔ میرا ارادہ ہے کہ جلد ان کی قبر پر جاؤں گی، ان کے لیے دعا کروں گی اور شکریہ ادا کروں گی۔ ہر ماں کو رؤف کلاسرا جیسا بیٹا نصیب ہو، یہی دعا ہے۔
ڈاکٹر ظفر الطاف اب اس دنیا میں نہیں رہے، لیکن ان سے ملنے کی خواہش ہمیشہ دل کے کسی گوشے میں رہے گی۔ "ایک باپ کا بدلہ” کہانی نے مجھے اپنے والد کی یاد دلا دی اور ایک بار پھر "کینسر وارڈ” کی کہانی نے مجھے رُلا دیا۔ کیونکہ میرا باپ اس دنیا میں نہیں، میں ایک بار پھر یادوں کی دنیا میں چلی گئی۔
آخر میں، میں رؤف کلاسرا اور ان کی اہلیہ فریال کا ایک بار پھر شکریہ ادا کروں گی۔ فریال بھابھی سے ملاقات کا ارادہ بھی ہے، کیونکہ انہیں دیکھ کر میں ہمیشہ ہمت حاصل کرتی ہوں اور بیماری سے لڑنے کی طاقت پاتی ہوں۔